رسائی کے لنکس

چینی کرنسی کی قدر کے تعین پر امریکہ اورچین کا موقف


چینی کرنسی کی قدر کے تعین پر امریکہ اورچین کا موقف
چینی کرنسی کی قدر کے تعین پر امریکہ اورچین کا موقف

بہت سے امریکی صنعتکار اور کانگریس کے ارکان امریکہ کے توازنِ تجارت میں زبردست خسارے، اور امریکی فیکٹریوں میں روزگار کے مواقع ختم ہونے کے لیے چین کو الزام دیتے ہیں۔

امریکی صنعت کارکہتے ہیں کہ چین اپنی کرنسی کی قدر میں ردو بدل کرتا رہتا ہے تا کہ دنیا کی منڈیوں میں چین میں بنی ہوئی اشیاء کی قیمتیں کم رہیں۔ دوسری طرف چین کا کہنا ہے کہ امریکہ کے اقتصادی مسائل کی اصل وجہ اخراجات میں بے تحاشا اضافہ، بچت میں کمی اور دوسرے نقائص ہیں۔ لیکن بعض تجزیہ کار کہتے ہیں کہ اس بحث میں اصل مسئلے پر توجہ نہیں دی جا رہی ہے۔

گذشتہ ہفتے کے دوران یہاں واشنگٹن میں سرکاری عہدے دار اور قانون ساز چین پر دباؤ ڈالتے رہے ہیں کہ وہ اپنی کرنسی کی قدر میں اضافہ ہونے دے۔ پیر کے روز، صدر براک اوباما نے اپنے چینی ہم منصب، ہو جن تاؤ پر زور دیا کہ وہ زر مبادلہ کی شرح میں مارکیٹ کے اتار چڑھاؤ کے مطابق کمی بیشی ہونے دیں۔ وزیرِ خزانہ ٹموتھی گیٹنر نے منگل کے روز امریکی نیوز ایڈیٹروں کے اجتماع میں اسی موضوع پر اظہارِ خیال کیا۔ انھوں نے کہا کہ انہیں پورا اعتماد ہے کہ چین بالآخر اپنی کرنسی یوان کی قدر بڑھنے دے گا اور اس نتیجے پر پہنچے گا کہ ایسا کرنا اس کے بہترین مفاد میں ہے۔

لیکن صدراوباما کی طرح، گیٹنر نے بھی محتاط رویہ اختیار کیا اور اس بات پر زور دیا کہ اس سلسلے میں فیصلہ کرنا بیجنگ کا کام ہے، واشنگٹن کا نہیں۔ انھوں نے کہا کہ’’چین ایک مضبوط خودمختار ملک بننا چاہتا ہے۔ اور ایک مضبوط، بہت بڑی، اور وسعت پذیر معیشت والے ملک کے لیے یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ اپنی مالیاتی پالیسی اور شرح تبادلہ کا ایسا طریقہ اختیار کرے جس میں اس کی پوری معیشت کے لیے شرح سود کا تعین امریکہ کا فیڈرل ریزرو بینک کرنے لگے‘‘۔

امریکی قانون سازوں نے اس ہفتے فیڈرل ریزرو کے چیئرمین بن برنانکی سے چین کی کرنسی کے بارے میں تندو تیز سوالات کیے۔ بہت سے ارکان نے کہا کہ بیجنگ کی پالیسیوں کی وجہ سے عالمی تجارت میں توازن ختم ہو گیا ہے اور عالمی کساد بازاری کی ایک وجہ یہ بھی ہے۔ برنانکی نے کہا کہ وہ عام طور سے اس جائزے سے متفق ہیں لیکن انھوں نے کہا کہ لچکدار شرح مبادلہ اور چین میں اشیاء کے استعمال میں اضافے سے، بیجنگ کو زیادہ متوازن معیشت کی تشکیل میں مدد ملے گی۔

لیکن بعض تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ یوان کی شرح تبادلہ پر اتنی زیادہ توجہ دینےسے، امریکہ اور چین کے درمیان تجارتی عدم توازن کی اصل وجوہات پس پشت جا پڑتی ہیں۔

واشنگٹن میں ہیریٹیج فاؤنڈیشن کے ڈیرک سیزرز کہتے ہیں کہ اصل مسئلہ یہ ہے کہ چین میں اشیا کی پیداوار میں اور سرکاری ملکیت والی فیکٹریوں کو حکومت کی طرف سے مدد ملتی ہے۔ ان کے مطابق ’’بات شرح مبادلہ کی نہیں ہے۔ بنیادی بات یہ ہے کہ زمین مفت ملتی ہے، قرض لینے پر کوئی لاگت نہیں آتی، اور سرکاری کمپنیوں میں پروڈکشن ضابطوں کے تحت ہوتی ہے۔ اس طرح لاگت بہت کم ہو جاتی ہے اور مارکیٹ میں پیداوارکی فروخت کی ضمانت مل جاتی ہے۔ اس سے برآمدات پر اثر پڑتا ہے لیکن بیشتر اثرات درآمدات پر ہوتےہیں۔ آپ چین میں اشیاء آسانی سے درآمد نہیں کر سکتے کیوں کہ سرکاری ملکیت والی کمپنیوں کو بہت زیادہ امداد دی جاتی ہے۔ امریکہ میں جو کچھ ہوتا ہے وہ اس کے بالکل خلاف ہے‘‘۔

سیزرز کہتے ہیں کہ امریکہ میں مسئلہ یہ ہے کہ حکومت اشیاء کی پیداوار میں امداد دینے کے بجائے اشیاء کے استعمال پر امداد دیتی ہے۔ ہم یہ کس طرح کرتے ہیں؟ اول تو یہ کہ ایک طویل عرصے تک ہماری مالیاتی پالیسی ہر قسم کی پابندیوں سے آزاد تھی جس کی وجہ سے مالیاتی بحران میں اضافہ ہوا اور اب حکومت چیزوں کے استعمال اور اخراجات میں اضافے میں امداد دے رہی ہے۔ حکومت وہ پیسہ خرچ کر رہی ہے جو اس کے پاس موجود ہی نہیں ہے۔

CATO Institute کے ڈینیل آئکینسن کہتے ہیں آخری بار2005 ء اور 2008 ء کے درمیان جب چین نے اپنی کرنسی کی قدر میں اضافہ ہونے دیا تھا تو چین کے ساتھ امریکہ کا تجارتی خسارہ اور زیادہ ہو گیا تھا اور یہ یوآن کی قدر میں 21 فیصد اضافے کے بعد ہوا تھا۔ آئکینسن کہتے ہیں کہ ’’یہ کیسے ممکن ہوا، اگر امریکی، چینی مصنوعات کے لیے 21 فیصد زیادہ قیمتیں ادا کر رہے ہیں؟ یہ اس طرح ممکن ہوا کہ کیوں کہ امریکیوں کے لیے اشیاء کی قیمیتں 21 فیصد نہیں بڑھیں کیوں کہ چینیوں نے کرنسی کی قدر میں تبدیلی کی تلافی کرنے کے لیے اپنی قیمت فروخت میں کمی کر دی۔ میرا خیال یہ ہے کہ آئندہ بھی ایسا ہی ہوگا‘‘۔

آئکینسن کہتے ہیں کہ ضروری بات یہ ہے کہ چین کے لوگ زیادہ مقدار میں اشیائے صرف استعمال کرنے لگیں۔ یہ نہ صرف تجارت میں توازن کے لیے بلکہ دنیا میں متوازن اقتصادی ترقی کے لیے بھی ضروری ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ دنیا ایک طویل عرصے سے اشیاء کے استعمال میں اضافے کے لیے امریکہ کی طرف دیکھتی رہی ہے لیکن اب بہت سے اقتصادی ماہرین انتباہ کر رہے ہیں کہ عالمی مالیاتی بحران کے بعد مستقبلِ قریب میں امریکی صارفین کے اشیاء کے استعمال میں اضافہ بہت زیادہ نہیں ہو گا اور ممکن ہے کہ چینی صارفین اس کمی کو پورا کریں۔

XS
SM
MD
LG