رسائی کے لنکس

امریکی کانگریس کی طرف سے چین پر کرنسی کی قدر بڑھانے کے لیے دباؤ


امریکی کانگریس میں چین پر اپنی کرنسی یوان کی قدر ازسرنومتعین کرنے کے لیے مزید دباؤ ڈالنے کی تحریک جاری ہے۔ کچھ قانون سازوں کا کہنا ہے کہ چینی حکومت اپنی کرنسی کی قیمت مصنوعی طور پر کم رکھ کر اپنی برآمدات کی مالی معاونت اور امریکی ملازمتوں کے لیے مشکلات پیدا کر رہی ہے۔

کئی کانگریس مین یہ اعتراض کرتے ہیں کہ چین کی سستی درآمدات کی امریکہ کو بھاری قیمت چکانا پڑتی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ چین نے اپنی برآمدات ارزاں بنانے کے لیے مصنوعی طریقے سے اپنی کرنسی کی قدر میں کمی کر رکھی ہے، جس کا نقصان امریکی صنعت کاروں کو پہنچ رہا ہے۔

نیویارک سے تعلق رکھنے والے ڈیموکریٹ سینٹر چک شومر کہتے ہیں کہ امریکہ کو چاہیئے کہ اگر ضرورت پڑے تو وہ اس سلسلے میں تعزیری محصول عائد کر دے۔

ان کا کہنا ہے کہ چینی آزاد تجارت پر یقین نہیں رکھتے۔ میرا خیال ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ پیسہ سمیٹنا چاہتے ہیں، وہ محض اپنی اقتصادی قوت بڑھانا چاہتے ہیں اور اس مقصد کے لیے وہ جو کچھ بھی کرسکتے ہیں، کریں گے، اور ان کے اس رویے کو تبدیل کرنے کا واحد طریقہ ان پر دباؤ ڈالنا ہے۔

دوسرے کئی سینیٹرز بھی کرنسی کے مسئلے پر چین کے ساتھ سخت رویہ اختیار کرنے کے معاملے میں اوباما انتظامیہ کو قانون منظور کرنے پر مجبور کرنے کے لیے مسٹر شومر کےساتھ شامل ہو رہے ہیں۔

یہ صحیح معنوں میں دو جماعتی کوشش ہے۔ حزب اختلاف کے ری پبلکن رکن ساؤتھ کیرولائنا کے سینیٹر لنڈسی گراہم کا کہنا ہے کہ اس سلسلے میں کچھ نہ کچھ کیا جانا بہت ضروری ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ سادہ سی بات یہ ہے کہ چین اپنی کرنسی کی مصنوعی طریقے سے قدر کم رکھنے والا دنیا کا سب سے بڑا ملک ہے، اور اس چیز کے بہت گہرے اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔

وائٹ ہاؤس نے مجوزہ بل پر کوئی خاص دھیان نہیں دیا ہے۔ اس کی بجائے صدر اوباما چینی راہنماؤں کے ساتھ براہ راست گفتگو پر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہیں۔ مسٹر اوباما نے نومبر میں چین کے دورے کے موقع پر یہ مسئلہ اٹھایا تھا، لیکن اب تک سفارت کاری اس معاملے پر کچھ زیادہ اثر انداز نہیں ہوسکی ہے۔

چینی وزیرِ اعظم وین جیا باؤ نے ایک حالیہ نیوز کانفرنس میں کرنسی کی قدر کے از سرِ نو تعین کے مطالبات کو مسترد کیا تھا۔ مسٹر وین نے کہا تھا کہ یہ مطالبے غیر سود مند ہیں بلکہ یہ تو اپنی مصنوعات کو تحفظ دینے کی ایک شکل ہیں۔

سییٹر گراہم اورسینیٹر شومر کہتے ہیں کہ یہ چینی وزیرِ اعظم کی طرف سے تجارت کے بارے میں چین کے اصل عزائم کا اظہار تھا۔ لیکن چینی امور کے ماہرین مسٹر وین کے ان الفاظ کو قدرے مختلف انداز میں دیکھتے ہیں۔

چارلس فری مین واشنگٹن میں سینٹر فار سٹرٹیجک اینڈ انٹرنیشنل سٹڈیز میں چینی امور سے متعلق پروگرام کے انچارج ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ میرا خیال ہے کہ آپ وزیر اعظم وین کو امریکی سامعین کے کسی اجتماع یا صدر اوباما سے نہیں بلکہ ایک ایسی بے قابو آبادی سے خطاب کرتا ہوا دیکھ رہے ہیں جو چاہتی ہے یا ایسا چاہتی ہوئی دکھائی دیتی ہے کہ چینی قیادت بین الاقوامی دباؤ کے سامنے ڈٹ جائے۔

صدر اوباما کو چینی کرنسی کے مسئلے اور تجارت پر اس کے اثرات سے نمٹنے کے سلسلے میں داخلی سیاسی دباؤ کا سامنا ہے۔ بےروزگاری کی بلند شرح کے اس دور میں وہ نئے روزگار پیدا کرنے کے لیے امریکی برآمدات بڑھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔

ایک موقعے پر اپنے خطاب میں انہوں نے کہا تھا کہ اپنے کارکنوں کے لیے روزگار کی تلاش کی غرض سے ہمیں عالمی منڈیوں میں مسابقت کے قابل ہونا پڑے گا۔ یہ بات امریکہ کے لیے اس سے پہلے اتنی اہم نہیں تھی جتنی کہ اس وقت ہے۔

لیکن چارلس فری مین کہتے ہیں کہ اب صدر اوباما، کانگریس کو تعزیری اقدامات کے بارے میں کھل کر بات کرنے کی اجازت دے رہے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ بین الاقوامی تجارت اور اقتصادی گفت و شنید میں ایسے مراحل اکثر آتے ہیں جب انتظامیہ کسی دوسرے ملک سے یہ کہتی ہے اگر آپ ایسا کریں گے تو پھر وہ آپ کو یہ بتا سکتی ہے کہ امریکی کانگریس کے جوشیلے ارکان کیا کچھ کرسکتے ہیں۔

اپریل میں انتظامیہ کو اس تنازعے پر واضح موقف اختیار کرنا ہو گا۔ 15 اپریل کو امریکی محکمہٴ خزانہ ان ملکوں کی ایک فہرست جاری کرے گا جو اپنی کرنسی کی قدر میں مصنوعی طریقے سے رد و بدل کرتے ہیں۔ قانون سازوں کا کہنا ہے کہ چین کو اس فہرست میں سب سے اوپر ہونا چاہیئے۔

XS
SM
MD
LG