رسائی کے لنکس

چین نے انٹرنیٹ پالیسی سے متعلق امریکی نکتہ چینی کو مسترد کر دیا



چین کا کہنا ہے کہ امریکہ کی وزیرِ خارجہ ہلری کلنٹن کی طرف سے انٹرنیٹ پر چین کے مؤقف پر نکتہ چینی غلط ہے، اور چین امریکہ تعلقات کو نقصان پہنچا سکتی ہیں۔

وزارتِ خارجہ نے کہا ہے کہ چین انٹرنیٹ پر نگرانی کی پالیسیوں پر امریکی نکتہ چینی کا سختی سےمخالف ہے۔

ریاستی ٹیلی ویژن پر نشر کردہ وزارتِ خارجہ کے بیان میں امریکیوں پر زور دیا گیا ہے کہ، اُس کے بقول، سچ کی پاسداری کریں، اور بے بنیاد الزامات عائد کرنے کے لیے انٹرنیٹ کی آزادی کے معاملے کا استعمال بند کریں۔

چین کے عہدے دار امریکی وزیرِ خارجہ ہلری کلنٹن کی جمعرات کی تقریر پر اپنے ردِ عمل کا اظہار کر رہے تھے جس میں دنیا بھر میں انٹرنیٹ کی وسیع تر آزادی کا مطالبہ کیا گیا تھا۔

وزیرِ خارجہ کلنٹن نے چین کو اُن ملکوں کی فہرست میں شامل کیا جہاں انٹرنیٹ پر اطلاعات کی آزادانہ تشہیر نہیں ہوتی۔

اُنھوں نے چینی اہل کاروں سے مطالبہ کیا کہ انٹرنیٹ کمپنی گوگل پر سائبر حملوں کے معاملے کا تفصیلی جائزہ لیں، اور اِس امید کا اظہار کیا کہ تفتیش اور اِس کے نتائج شفاف ہوں گے۔

سائبر حملوں اور حکومت کی طرف سے سینسرشپ پر تشویش کے باعث، گوگل چین سے نکل جانے پر غور کر رہا ہے۔

اپنے حالیہ انٹرویو میں چین میں امریکی سفیر جون ہنٹ مین نے زور دے کر کہا کہ چین میں گوگل کے ساتھ معاملات آزادیِ اظہار کے بنیادی امریکی قدر سے تعلق رکھتی ہیں۔

اُن کے الفاظ میں: ‘ ایک ایسے معاملے پر ٹکراؤ جو ہم سمجھتے ہیں کہ امریکی کی حیثیت سے ہماری سوچ کا جزو ہے، جس کے باعث شفافیت، اظہارِ رائے اور انٹرنیٹ کی آزادی کے معاملے پر گفتگو کا سلسلہ جاری رہے گا۔ یقینی طور پر۔ جو میں سمجھتا ہوں کہ ایک اچھی بات ہے۔ یہ ہمارے تعلقات کا مثبت جزو ہے۔’

جمعے کے روز چین کے جاری کردہ ردِ عمل میں گوگل کا حوالہ موجود نہیں ہے۔

چین روزانہ انٹرنیٹ سائٹس کو بلاک کرتا ہے جنھیں وہ حساس گردانتا ہے، جس میں وائس آف امریکہ جیسا بین الاقوامی خبروں کا ادارہ شامل ہے۔ وہ فیس بک کی طرز کے سماجی تعلقات کی کئی ایک سائٹوں کو بھی بلاک کر دیتا ہے۔ علاوہ ازیں، اہل کار بلاگ اور چینی شہریوں کی طرف سے انٹرنیٹ پر شائع کردہ تحریروں پر نظر داری رکھتا ہے، ایسے مواد پر جسے حکومت اشتعال انگیز تصور کرتی ہے۔

ربیکا میک کنون، اوپن سوسائٹی انسٹی ٹیوٹ میں تحقیق کار ہیں اور چین میں انٹرنیٹ پر کتاب تحریر کر رہی ہیں۔ وہ گوگل کے معاملے کو غیر معمولی قرار دیتے ہوئے کہتی ہیں کہ حکومتِ چین گوگل کے ساتھ معاملات طے کرنے پر بدحواسی کا شکار ہے۔

وہ کہتی ہیں کہ حکومت یہ نہیں چاہتی کہ گوگل کو بغیر نگرانی کےسرچ انجن کام جاری رکھنے کی اجازت ہو، کیونکہ اِس سے ایک مثال قائم ہو جائے گی۔ لیکن ساتھ ہی وہ کہتی ہیں کہ بیجنگ گوگل کے خلاف مکمل کارروائی پر آمادہ نہ ہو کیونکہ دوسری کمپنیاں اِس بات پر نظر رکھے ہوئے ہیں کہ گوگل کے ساتھ کیا سلوک روا رکھا جاتا ہے۔

وہ کہتی ہیں کہ حالانکہ اِس معاملے کو بین الاقوامی اہمیت مل چکی ہے، اِس بات کا اہم پہلو یہ ابھر کر سامنے آیا ہے کہ انٹرنیٹ سینسرشپ کے بارے میں چین میں داخلی طور پر آگاہی ابھر کر سامنے آئی ہے۔

‘اِس سارے تنازعے کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ اب لوگوں میں حکومت کی سینسر شپ پالیسیوں کے بارے میں لوگوں میں آگاہی بڑھی ہے، اور زیادہ امکان یہ ہے کہ اب لوگ سینسرشپ کے تانے بانے سے کترائیں گے۔ جوں جوں سینسرشپ کے بارے میں آگاہی آتی جائے گی، آپ بے چین ہوں گے کہ آپ کس چیز سے محروم ہیں، زیادہ امکان یہ ہے کہ آپ کوئی دوسرا راستا اختیار کر لیں۔’

میک کنن کہتی ہیں کہ چین میں انٹرنیٹ استعمال کرنے والوں کی ایک قلیل تعداد، اُن کے بقول، ایسا سافٹ ویر استعمال کرتے ہیں جس کی بدولت حکومت کی بندش کا توڑ کیا جاتا ہے۔ لیکن وہ کہتی ہیں اگر انٹرنیٹ سے مستفید ہونے والے زیادہ تر چینی اِس آلے کا استعمال شروع کر دیتے ہیں تو چین کی حکومت اپنی پالیسیوں پر نظرِ ثانی کرنے پر مجبور ہو جائے گی۔

XS
SM
MD
LG