رسائی کے لنکس

کشیدگی کے تناظر میں شمالی کوریا اور چین کے تعلقات


(فائل فوٹو)
(فائل فوٹو)

چین کو ایک طویل عرصے سے جزیرہ نمائے کوریا میں استحکام کی فکر رہی ہے تا کہ سرحد پار بڑی تعداد میں پناہ گزینوں کے ریلے کو روکا جا سکے ۔ لیکن تجزیہ کار کہتے ہیں کہ اس بارے میں تشویش میں مبالغے سے کام لیا جاتا ہے۔

امریکہ اور جنوبی کوریا کی فوجیں شمالی کوریا کی فوجوں، جنگی سازو سامان اور میزائلوں پر کڑی نظر رکھے ہوئے ہیں لیکن چین کی فورسز نے کیا احتیاطی تدابیر اختیار کی ہیں اس بارے میں چین نے کچھ نہیں بتایا ہے۔

شمالی کوریا کے ساتھ سب سے لمبی سرحد چین کی ہے، لیکن تجزیہ کار کہتے ہیں کہ بیجنگ کی اصل توجہ استحکام برقرار رکھنے پر ہے، اور اسےجنگی کارروائیوں کے بارے میں کوئی خاص تشویش نہیں ہے۔

شمالی کوریا کی جنگی بڑھکوں میں اضافہ ہوا تو امریکہ نے ریاست مزوری سے اپنے بمبار ہوائی جہاز جنوبی کوریا روانہ کر دیے اور میزائل کے ایک دفاعی نظام کو گوام کے جزیرے میں پہنچا دیا۔

جنوبی کوریا نے بحری جنگی جہاز اپنے پانیوں میں گشت کے لیے بھیج دیے۔ جنوبی کوریا کی انٹیلی جنس نے اعلان کیا کہ اس نے شمالی کوریا کے میزائل لانچرز کو مشرق کی طرف جاتے ہوئے دیکھا ہے، لیکن بڑے پیمانے پر فوجوں اور سازو سامان کی نقل و حرکت دیکھنے میں نہیں آئی ہے۔

اس دوران چین نے جو شمالی کوریا کا واحد اتحادی ملک ہے، 1961 کے دفاعی معاہدے کے باوجود، بظاہر کوئی بڑی فوجی نقل و حرکت نہیں کی ہے۔

چین کو ایک طویل عرصے سے جزیرہ نمائے کوریا میں استحکام کی فکر رہی ہے تا کہ سرحد پار بڑی تعداد میں پناہ گزینوں کے ریلے کو روکا جا سکے ۔ لیکن، تجزیہ کار کہتے ہیں کہ اس بارے میں تشویش میں مبالغے سے کام لیا جاتا ہے۔

ہونو لو لو میں اسٹریٹجک اینڈ انٹرنیشنل اسٹڈیز کے پیسفک فورم سینٹر کے ڈائریکٹر آف پروگرامز کلارک بیکر کہتے ہیں کہ سرحد کے ساتھ ساتھ کسی بڑے فوجی اجتماع کی رپورٹیں نہیں ملی ہیں۔

’’چین کو بڑی تعداد میں پناہ گزینوں کی آمد کے بارے میں تشویش تو ہے، لیکن ایسا نہیں ہے کہ یہ چین کے لیے کوئی بہت بڑا مسئلہ ہو۔ اگر آپ اعداد و شمار پر نظر ڈالیں، تو پناہ گزینوں کی جتنی بڑی تعداد شمالی کوریا سے چین پہنچے گی، اس سے پریشانی تو ضرور ہو گی لیکن چین کے لیے سرحد پر پہنچنے والے لوگ کوئی اتنا بڑا مسئلہ نہیں ہوں گے ۔ لیکن، مجھے بہر حال ایسے کوئی آثار نظر نہیں آئے کہ اس علاقے میں بڑے پیمانے پر فوجوں کی نقل و حرکت ہو رہی ہو۔‘‘

اس مہینے کے شروع میں، مغربی میڈیا میں ، گمنام ذرائع کے حوالے سے ایسی رپورٹیں شائع ہوئی تھیں کہ شمالی کوریا اور چین کی سرحد پر چینی فوجوں کے اجتماع کی علامتیں نظر آئی ہیں تا کہ جنگ کی صورت میں شمالی کوریا کے پناہ گزینوں کے لیے تیاری کی جا سکے۔

جرمن نیوز ایجنسی ڈی پی اے نے اطلاع دی تھی کہ چین کے فوجی اجتماع کا مقصد یہ بھی ہے کہ شمالی کوریا کی نیوکلیئر تنصیبات کی حفاظت کی جائے، جب کہ اخبار واشنگٹن ٹائمز کی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ ان اطلاعات سے ظاہر ہوتا ہے کہ بیجنگ فوجی اعتبار سے پیانگ یانگ کی مدد کے لیے تیار ہے ۔

ان غیر مصدقہ اطلاعات کا ترجمہ کچھ چینی ویب سائٹس اور بلاگز میں شائع ہوا تھا لیکن بیشتر تجزیہ کاروں نے انہیں نظر انداز کر دیا تھا ۔

چین کی وزارتِ دفاع نے اپنے تبصروں میں صرف انہیں بیانات کو دہرایا ہے جن میں تمام فریقوں پر کشیدگی کم کرنے، بات چیت شروع کرنے، اور علاقائی امن اور استحکام برقرار رکھنے کے لیے کہا گیا ہے۔

سنگا پور کی نانیانگ ٹیکنالوجیکل یونیورسٹی کی سینیئر فیلو یواِن گراہم کہتے ہیں کہ یہ بات اب بھی بیجنگ کے مفاد میں ہے کہ جنگ کو روکا جائے کیوں کہ جنگ کی صورت میں امریکی فوجیں اس کی سرحدوں تک پہنچ سکتی ہیں ۔

’’چین میں اور خاص طور سے اس کے فوجی حلقوں میں، شمالی کوریا کو بفر کے طور پر دیکھنے کا خیال اب بھی مقبول ہے ۔ میرے خیال میں، وسیع تر، اسٹریٹجک نقطۂ نظر سے، چین اپنی حکمت عملی ، ایشیا میں امریکہ کے نئے توازن کی روشنی میں ترتیب دے رہا ہے ۔ اور اگرچہ شمالی کوریا کا رویہ سرکشی اور عدم تعاون کا ہے، لیکن اس علاقے میں چین کا وہی ایک اتحادی ہے۔‘‘

شمالی کوریا کا وجود کوریا کی جنگ کے دور میں چین کی فوجی مدد کا رہینِ منت ہے۔ شمالی کوریا کو شکست ہونے ہی والی تھی کہ بیجنگ نے اندازاً بیس لاکھ فوجی بھیج کر جنگ کا پانسہ پلٹ دیا۔ ان فوجیوں نے امریکہ کی قیادت میں اقوامِ متحدہ کی فوجوں کو پیچھے دھکیل دیا۔
چین نے ایک بار کہا تھا کہ شمالی کوریا کے ساتھ اس کے ساتھ تعلقات اتنے قریبی ہیں جیسے کسی کے ہونٹ اور دانت۔

لیکن پیانگ یانگ کی سرکشی اور نیوکلیئر اسلحہ کے حصول کی کوشش کی وجہ سے بیجنگ نے اس کے خلاف اقوامِ متحدہ کی پابندیوں کی حمایت کی ہے۔

تجزیہ کار گراہم کہتے ہیں کہ کم جونگ اِل کے برعکس جن کا انتقال 2011 میں ہوا، کم جونگ اُن کو یہ معلوم نہیں کہ وہ کس حد تک چین کے صبر کا امتحان لے سکتے ہیں۔

’’کم جون ال بہت تجربے کار تھے، وہ جانتے تھے کہ چین کے ساتھ تعلقات میں سرخ لائن پار نہیں کرنی ہے ۔ ایک نئے اور نا تجربہ کار لیڈر میں خطرے کا عنصر یہی ہے کہ وہ حد سے زیادہ خود اعتمادی میں، وہ لائن پار نہ کر لیں ۔ کیوں کہ شمالی کوریا جتنا زیادہ اپنی نیوکلیئر اور میزائل کی صلاحیتوں کو ترقی دیتا جائے گا، اتنا ہی زیادہ یہ خطر ہ بڑھتا جائے گا کہ وہ ضرورت سے زیادہ اعتماد کا شکار نہ ہو جائے۔‘‘

اس دوران، چین پر نظر رکھنے والے ماہرین، ایسی علامتوں پر نظر رکھے ہوئے ہیں جن سے شمالی کوریا کی جانب اس کی سرکاری پالیسی میں تبدیلی کا اظہار ہوتا ہو۔

بیکر کہتے ہیں کہ انہیں اس بات پر بھی کڑی نظر رکھنی چاہیئے کہ بیجنگ اور سیول کے درمیان تعلقات کس طرح آگے بڑھ رہے ہیں۔ ’’بالآخر، اصل مقابلہ چین اور جنوبی کوریا کے درمیان ہے ۔ ہمیں اسی چیز پر نظر رکھنی چاہیئے کہ جنوبی کوریا اور چین کے درمیان تعلقات میں کیسی پیش رفت ہوتی ہے۔ جنوبی اور شمالی کوریا کے درمیان اتنے سخت ٹکراؤ کے بعد، چین کا اصل موقف کیا ہو گا؟ چین کس حد تک شمالی کوریا کی حمایت کرے گا، اور جنوبی کوریا کی کتنی حمایت کرے گا۔‘‘

بیکر کہتے ہیں کہ جنوبی کوریا اور امریکہ کوشش کر رہے ہیں کہ شمالی کوریا نے طویل عرص سے جو ایک مخصوص طرزِ عمل اختیار کیا ہوا ہے، اسے ختم کریں۔ وہ طرزِ عمل یہ ہے کہ کشیدگی میں اضافہ کیا جائے، اور اس طرح سفارتی اور اقتصادی رعایتوں کے لیے دباؤ ڈالا جائے ۔

اس دوران، چین مسلسل برداشت سے کام لینے ، اور شمالی کوریا کے نیوکلیئر پروگرام کو ختم کرنے کے لیے بین الاقوامی مذاکرات دوبارہ شروع کرنے پر زور دے رہا ہے ۔
XS
SM
MD
LG