رسائی کے لنکس

چنیوٹ، دستکاری کے ماہرین کا قدیم شہر


چنیوٹ، دستکاری کے ماہرین کا قدیم شہر
چنیوٹ، دستکاری کے ماہرین کا قدیم شہر

لکڑی اور پیتل پر نقش ونگار کا کام کرنے والے کاریگر چنیوٹ کی پہچان ہیں۔ یہ لوگ اپنا فن خاندان ہی میں رکھتے ہیں

دریائے چناب کے کنارے واقع چنیوٹ کا شمار پنجاب کے قدیم ترین شہروں میں ہوتا ہے۔ درہ خیبر سے دہلی جانے والے راستے پر واقع ہونے کی وجہ سے اس شہر کو تاریخ میں کافی اہمیت حاصل رہی ہے۔ تاہم محکمہ سیاحت کے ایک عہدیدار بتاتے ہیں کہ چنیوٹ کے مقامی لوگوں کا خیال ہے کہ ہندووں کی مذ ہبی کتاب رِگ وید میں اُن کے شہر کا ذکر موجود ہے اور ہندووں ہی کی ایک دوسری مذہبی کتاب رامائن میں بھی"چنّی واٹ" نام کے جس قصبے کا ذکر ہے اُس کو بھی یہاں لوگ چنیوٹ ہی کا ذکر سمجھتے ہیں۔

اس عہدیدار نے بتایا کہ چنیوٹ میں روایت ہے کہ چوتھی صدی قبل مسیح میں چندر گپت موریا اور اُس دور کا مشہور سکالر، سیاست دان اور فلسفی پنڈت کوٹلیا چانکیا بھی اسی شہر میں پیدا ہوا تھا۔ عہدیدار کا کہنا تھا کہ ان سب باتوں کی حیثیت تو سنی سنائی باتوں سے زیادہ نہیں مگر جو بات مسلمہ ہے وہ یہ ہے کہ البیرونی کی کتاب الہند اور مغل بادشاہ بابر کی تزک بابری میں چنیوٹ کا ذکر موجود ہے اور تاریخ کی کتابوں میں جہانگیر کے دور میں اس شہر کے حکیم علم الدین کا ذکر ملتا ہے جس کو نواب وزیر خاں کا خطاب دیا گیا تھا اور بعد ازاں شاہجہان کے دور میں نواب وزیر خاں اہم سرکاری عہدے پر فائز بھی رہا۔ لاھور کی تاریخی مسجد وزیر خاں اسی شخصیت نے بنوائی تھی۔

محکمہ سیاحت کے عہدیدار نے بتایا کہ چنیوٹ میں بہت سے قابل دید مقامات ہیں۔ ان میں ایک عمر حیات پیلس ہے جس کو چنیوٹ کا تاج محل کہا جاتا ہے۔ اُن کا کہنا تھا کہ چنیوٹ کی شیخ برادری پورے ہندوستان میں معروف رہی ہے اور عمر حیات اسی برادری سے تعلق رکھتے تھے اور بڑے کامیاب تاجر تھے۔

اُنیس سوتیئس میں انہوں نے اپنے بیٹے گلزار کے لیے یہ محل بنوایا تھا اِسی لیے اس کو گلزار منزل بھی کہا جاتا ہے۔ عمر حیات پیلس اُنیس سو سینتیس میں مکمل ہوا جبکہ عمر حیات کا انتقال دوسال قبل اُنیس سو پینتیس میں ہوگیا تھا اور وہ اس محل کو اپنی مکمل شکل میں دیکھنے سے محروم رہے تھے۔

اُنہوں نے کہا کہ فنِ تعمیر کے لحاظ سے عمر حیات پیلس اپنی مثال آپ ہے۔ اس عہدیدار کے بقول چنیوٹ کی شاہجہان کے دور میں تعمیر ہونے والی بادشاہی مسجد بھی فن ِ تعمیر کا بہترین نمونہ ہے جبکہ لکڑی کے بے مثال کام کے لیے چنیوٹ کی حویلی سردار شاہ انتہائی شہرت کی حامل ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ تعزیہ بنانے کے حوالے سے بھی چنیوٹ کی منفرد حیثیت ہے اور یہاں ایسے ہنر مند موجود ہیں جو تیس فٹ سے چوالیس فٹ بلند تک تعزیے بنا کر محرم الحرام کے تعزیے کے جلوسوں کو یادگار بنا دیتے ہیں۔

اس کے علاوہ چنیوٹ میں کئی بزرگوں کے مزارات کی خوبصورت عمارتیں بھی ہیں جن میں شاہ برھان الدین بخاری، شاہ اسمٰعیل بخاری اور شاہ بہلول قادری کےمزارات زیادہ معروف ہیں۔ شاہ برھان الدین بخاری کے مزار پر محکمہ آثارِقدیمہ کی طرف سے درستیابی کا کام بھی ہورہا ہے۔

واضح رہے کہ آجکل چنیوٹ کی شہرت لکڑی اور پیتل کے خوبصورت کام کے حوالے سے ہے۔ اس شہر کا بنا ہوا فرنیچر، پیتل کے برتنوں پر نقش ونگار اور ماہر کاریگروں کے بنائے خوبصورت، جھروکے اور دروازے اپنی مثال آپ ہیں۔ اس منفرد فن کے زیادہ تر کاریگر اسی شہر میں پائے جاتے ہیں اور اکثر فن باپ سے بیٹے کو منتقل ہو کر خاندان ہی میں رہتا ہے البتہ ان کی بنائی ہوئی چیزیں پوری دنیا کو برآمد کی جاتی ہیں۔

لکڑی اور پیتل پر نقش ونگار کا کام کرنے کے یہ ماہرین جب مل بیٹھتے ہیں تو اپنے بچوں کو، جو ان کےشاگرد بھی ہوتے ہیں، چنیوٹ کے بارے میں اپنے بڑوں سے سنی ہوئی کہانیاں بھی سناتے ہیں۔ ایسی ہی ایک کہانی کے مطابق پرانے زمانے میں چندن نام کی یہاں کے راجہ کی ایک بیٹی تھی جو مردانہ لباس میں شکار کھیلنے کی شوقین تھی۔ ایک مرتبہ شکار کا پیچھا کرتے ہوئے جب وہ دریائے چناب کے کنارے اس جگہ پہنچی تو اس کے حسن سے بہت متاثر ہوئی اور راجہ سے یہاں ایک شہر آباد کرنے کا حکم جاری کروادیا۔ بادشاہ نے اپنی بیٹی چندن کے نام پر اس شہر کا نام چندن یوٹ رکھا جو بعد میں چنیوٹ کہلانے لگا۔

XS
SM
MD
LG