رسائی کے لنکس

ایران اپنے جوہری پروگرام پر پیش رفت کے نتائج سے آگاہ ہے: جان برینن


'سی آئی اے' کے سربراہ جان برنین (فائل فوٹو)
'سی آئی اے' کے سربراہ جان برنین (فائل فوٹو)

جان برنین نے امریکی ٹیلی ویژن چنیل 'فاکس نیوز' پر بات کرتے ہوئے کہا کہ ان کے خیال میں ایران اس بار ے میں آگاہ ہے کہ اگر اس نے اپنے جوہری پروگرام پر پیش رفت جاری رکھی تو اس کے کیا نتائج ہو سکتے ہیں۔

امریکہ کے انٹیلی جنس ادارے 'سی آئی اے' کے سربراہ کا کہنا ہے کہ ایران کو معلوم ہے کہ اگر اس نے جوہری ہتھیار بنانے کی کوشش کی تو’’اس کو بھاری قیمت، نتائج اور مضمرات‘‘ کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

جان برنین نے امریکی ٹیلی ویژن چنیل 'فاکس نیوز' پر بات کرتے ہوئے کہا کہ ان کے خیال میں ایران اس بار ے میں آگاہ ہے کہ اگر اس نے اپنے جوہری پروگرام پر پیش رفت جاری رکھی تو اس کے کیا نتائج ہو سکتے ہیں۔

انھوں نے اس اعتماد کا اظہار بھی کیا کہ امریکہ اپنی انٹیلی جنس صلاحیتوں کی بنا پر اس بارے میں آگاہ ہے کہ ایران کے جوہری پروگرام کے کیا نتائج ہو سکتے ہیں۔

جان برینن نے یہ بات امریکی وزیر خارجہ جان کیری کی یورپ میں ایران کے ساتھ جوہر ی پروگرام سے متعلق مذاکرات میں عارضی وقفے کے دوارن ہونے والے ملاقاتوں کے ایک دن بعد کی۔

جان کیری، برطانوی، فرانسیسی اور جرمن وزرائے خارجہ نےلندن میں کہا ہم معاملات میں قابل ذکر پیش رفت ہوئی ہے تاہم اب بھی کئی ایک اہم معاملات ایسے ہیں جن پر کوئی اتفاق رائے ممکن نہیں ہو سکا ہے۔

انھوں نے ایران سے ایسے فیصلے کرنے کا مطالبہ کیا جو ان کے بقول مشکل ہیں اور کہا کہ وہ ایک ایسے معاہدے پر دستخط نہیں کریں گے جو کہ ’’پائیدار اور قابل تصدیق‘‘ نہ ہو۔

ان مذاکرات سے پہلے جان کیر ی نے کہا تھا کہ ’’اب بنیادی فیصلے کرنے کا وقت ہے‘‘۔

انہوں نے کہا کہ جیسے جیسے وقت گزر رہا ہے یہ فیصلے کرنا اتنا آسان نہیں رہے گا۔

ہفتے کو امریکی اخبار' ہفنگٹن پوسٹ' میں نشر ہونے والے ایک انٹرویو میں صدر اوباما نے کہا کہ سوال یہ ہے کہ کیا ایران دنیا کو یہ واضح کرنے کے لیے تیار ہے کہ وہ جوہری ہتھیار نہیں بنا رہا ہے۔

یہ مذاکرات اس ہفتے سوئیزرلینڈ کے شہر لوزین میں دوبارہ شروع ہونے کی توقع ہے جس میں چین اور روس کے سفارت کار بھی شامل ہو جائیں گے۔

اس سے قبل ہفتے کو ایران کے صدر حسن روحانی نے اعتراف کیا کہ اب بھی اختلافات موجود ہیں تاہم انھوں نے کہا کہ ’’ایسا کچھ (مسئلہ) نہیں جو حل نہ کیا جا سکے‘‘۔

ان مذاکرات میں شامل فریقوں کا حتمی معاہدے کے لیے 31 مارچ سے قبل ایک لائحہ عمل پر متفق ہونا ضروری ہے۔

ایران کو اپنے ہاں یورینیم کی افژودگی کی حد کو کم کرنا ہو گا جس کا مقصد اس کو جوہری ہتھیار بنانے سے روکنا ہے اور اس کے عوض عالمی طاقتیں ایران پر عائد ان پابندیوں کو اٹھا لیں گی جس سے ایرانی معشیت تباہ ہو گئی ہے۔

ایران اس بات کی تردید کرتا ہے کہ وہ جوہری ہتھیار بنانا چاہتا ہے۔ اس کا اصرار ہے کہ اس کا جوہری پروگرام پُرامن مقاصد کے لیے ہے۔

XS
SM
MD
LG