رسائی کے لنکس

ایبٹ آباد آپریشن: فوجی ’مخبروں‘ کی گرفتاری کی تردید


سی آئی اے کے سربراہ لیون پنیٹا نے گزشتہ ہفتے اسلام آباد میں جنرل کیانی سے ملاقات کی تھی ( فائل فوٹو)
سی آئی اے کے سربراہ لیون پنیٹا نے گزشتہ ہفتے اسلام آباد میں جنرل کیانی سے ملاقات کی تھی ( فائل فوٹو)

امریکی اخبار کا کہنا ہے کہ حراست میں لیے گئے سی آئی اے کے مخبروں کا مستقبل غیر واضح ہے۔ لیکن امریکی حکام نے بتایا کہ سی آئی اے کے سربراہ لیون پنیٹا نے گزشتہ ہفتے اپنے دورہ اسلام آباد میں یہ معاملہ پاکستانی فوجی اور انٹیلی جنس حکام کے سامنے اُٹھایا تھا۔

پاکستان کی فوج نے ایک امریکی اخبار کی اْس رپورٹ کو ”بے بنیاد“ قرار دے کر مسترد کیا ہے جس میں کہا گیا تھا کہ ملک کے خفیہ ادارے آئی ایس آئی نے امریکہ کی سنٹرل انٹیلی جنس ایجنسی (سی آئی اے) کے لیے مخبری کرنے والے پانچ افراد کو گرفتار کیا ہے جس میں فوج کا ایک میجر بھی شامل ہے۔

پاکستانی فوج کے ترجمان نے بدھ کو ایک مختصر بیان میں اس دعوے کی سختی سے تردید کرتے ہوئے کہا کہ ”فوج کا کوئی افسر گرفتار نہیں ہوا اور یہ خبر غلط اور بالکل بے بنیاد ہے۔“ بیان میں دیگر گرفتاریوں کے حوالے سے کوئی وضاحت پیش نہیں کی گئی۔

امریکی اخبار نیو یارک ٹائمز کا کہنا تھا کہ آئی ایس آئی نے پانچ پاکستانی مخبروں کو گرفتار کیا ہے جو اساما بن لادن کے خلاف آپریشن سے قبل سی آئی اے کو معلومات فراہم کرنے والوں میں شامل تھے۔

اخبار نے نام ظاہر کیے بغیر امریکی حکام کے حوالے سے خبر دی ہے کہ حراست میں لیے گئے افراد میں پاکستان کی بری فوج کا میجر کے عہدے کا ایک افسر بھی شامل ہے جس نے ایبٹ آباد میں بن لادن کی کمین گاہ میں آنے والی گاڑیوں کے رجسٹریشن نمبر سے متعلق معلومات سی آئی اے کو فراہم کیں۔

پاکستانی افواج کے شعبہ تعلقات عامہ آئی ایس پی آر کے ڈائریکٹر بریگیڈئر عظمت علی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں بتایا کہ دو مئی کو بن لادن کے خلاف خفیہ امریکی آپریشن کے بعد متعدد افراد کو حراست میں لیا گیا لیکن اُن میں کوئی فوجی افسر شامل نہیں ہے۔

ایبٹ آباد کے رہائشی علاقے بلال ٹاؤن میں پیش آنے والے واقعے کی حساس نوعیت کی وجہ سے گرفتاریوں کے بارے میں تفصیلات بتانے سے معذرت کرتے ہوئے آئی ایس پی آر کے عہدے دار نے صرف اتنا کہا کہ زیر حراست افراد کا تعلق بن لادن کی پناہ گاہ اور اس علاقے سے ہے۔

اُن کا کہنا تھا کہ مقامی افراد کو اپنے گردونواح میں وقوع پذیر ہونے والے واقعات کے بارے میں علم ہوتا ہے اور اس وجہ سے یہ گرفتاریاں کی گئی ہیں۔ اُنھوں نے بتایا کہ حراست میں لیے گئے افراد میں بن لادن کی پناہ گاہ پر دودھ فراہم کرنے والا گوالا اور اس عمارت کو تعمیر کرنے والا ٹھیکیدار بھی شامل تھے۔

بریگیڈئر عظمت علی کے بقول ”ان (افراد) سے تفتیش جاری ہے اورجو بے گناہ ثابت ہوئے اُنھیں رہا کر دیا جائے گا۔“

اخبار نے نام ظاہر کیے بغیر امریکی حکام کے حوالے سے خبر دی ہے کہ حراست میں لیے گئے افراد میں پاکستان کی بری فوج کا میجر کے عہدے کا ایک افسر بھی شامل ہے جس نے ایبٹ آباد میں بن لادن کی کمین گاہ میں آنے والی گاڑیوں کے رجسٹریشن نمبر سے متعلق معلومات سی آئی اے کو فراہم کیں۔

اخبار کا کہنا ہے کہ حراست میں لیے گئے سی آئی اے کے مخبروں کا مستقبل غیر واضح ہے۔ لیکن امریکی حکام نے بتایا کہ سی آئی اے کے سربراہ لیون پنیٹا نے گزشتہ ہفتے اپنے دورہ اسلام آباد میں یہ معاملہ پاکستانی فوجی اور انٹیلی جنس حکام کے سامنے اُٹھایا تھا۔

نیویارک ٹائم کے مطابق مخبروں کی گرفتاری امریکہ اور پاکستان کے درمیان کشیدہ تعلقات کا تازہ ترین ثبوت ہے۔

یہ اطلاعات ایک ایسے وقت سامنے آئی ہیں جب اوباما انتظامیہ افغانستان میں جنگ کے حتمی خاتمہ کی کوششوں میں پاکستان کی حمایت کا مطالبہ کر رہی ہے۔

افغانستان میں امریکی فوجی
افغانستان میں امریکی فوجی

نیو یارک ٹائمز کا کہنا ہے کہ امریکی سینیٹ کی انٹیلی جنس کمیٹی کے گزشتہ ہفتے ہونے والے ایک بند کمرہ اجلاس میں جب اراکین نے سی آئی اے کے نائب سربراہ مائیکل جے مورل سے امریکہ اور پاکستان کے درمیان انسداد دہشت گردی کے سلسلے میں تعاون کی 1 سے 10 کے درمیان درجہ بندی کرنے کو کہا گیا تو اُن کا جواب 3 تھا۔

البتہ امریکی حکام نے متنبہ کیا مسٹر مورل کا تجزیہ موجودہ روابط کی جھلک ہے اور اوباما انتظامیہ کے مجموعی اندازے کی نمائندگی نہیں کرتا ہے۔

سی آئی اے کی ایک ترجمان میری ای ہارف نے بتایا کہ امریکی انٹیلی جنس ایجنسی کے اپنے پاکستانی ہم منصبوں سے مضبوط تعلقات ہیں اور مسائل سامنے آنے پر باہمی کوششوں سے ان کو حل کیا جاتا ہے۔

ہارف کے بقول ’’ڈائریکٹر پنیٹا کی گزشتہ ہفتے اسلام آباد میں ملاقاتیں سیر حاصل رہیں۔ یہ انتہائی ناگزیر تعلقات ہیں اور ہم ایک دوسرے کے ساتھ مل کر القاعدہ اور دوسرے دہشت گرد گروہوں کے خلاف لڑائی جاری رکھیں گے جو ہمارے اور اُن کے ملک (پاکستان) کے لیے خطرہ ہیں۔‘‘

نیویارک ٹائمز کے مطابق واشنگٹن میں پاکستانی سفیر حسین حقانی نے ٹیلی فون پر ایک مختصر انٹرویو میں بتایا کہ آئی ایس آئی اور سی آئی اے دہشت گردی کے خلاف تعاون کے بارے میں ’’مشرکہ طور پر قابل قبول شرائط‘‘ مرتب کر رہے ہیں۔ ’’اس مرحلے پر ہمارا تفصیلات میں جانا مناسب نہیں ہوگا۔‘‘

پاکستانی سفیر حسین حقانی
پاکستانی سفیر حسین حقانی

واشنگٹن میں بعض شخصیات کے خیال میں ایک ایسے وقت جب پاکستان اور امریکہ کو القاعدہ کے خلاف لڑائی میں اتحادی ہونا چاہیئے سی آئی اے کے مخبروں کی گرفتاری ان دونوں کی ترجیحات میں اختلاف کی نشاندہی کرتی ہیں۔

اُن کا موقف ہے کہ پاکستانی حکام کو دنیا کے مطلوب ترین شخص کے خلاف آپریشن میں مدد دینے والوں کو گرفتار کرنے کے بجائے اُن عناصر کا کھوج لگانا چاہیئے جن کی وجہ سے بن لادن کئی سال تک ایک آرام دہ زندگی گزارتا رہا۔

نیویارک ٹائمز کا کہنا ہے کہ گزشتہ چند ہفتوں کے دوران پاکستانی فوج نے خود کو ملک میں عسکریت پسندوں کے خلاف امریکی انٹیلی جنس اور دیگر آپریشنز سے دور رکھا ہے۔

اخبار کے مطابق اس صورت حال پر واشنگٹن میں متعدد حکام غصے کا اظہار کر رہے ہیں کیوں کہ اُن کے خیال میں بن لادن کی موت نے القاعدہ کو ہلا کر رکھ دیا ہے اور یہی موقع ہے جب ڈرون حملوں کی مدد سے اس تنظیم کو مزید کمزور کیا جا سکتا ہے۔

لیکن امریکی حکام کے بقول عمومی طور پر آئی ایس آئی کے مخبر سی آئی اے کے لیے نگرانی نہیں کرنا چاہتے۔

ایبٹ آباد میں واقع بن لادن کی پناہ گاہ
ایبٹ آباد میں واقع بن لادن کی پناہ گاہ

اخبار لکھتا ہے کہ پاکستان امریکی انٹیلی جنس اہلکاروں کو ویزوں کی فراہمی میں بھی رکاوٹ ڈال رہا ہے جب کہ اس نے بغیر پائلٹ کے امریکی جاسوس طیاروں کی پروازوں کے حوالے سے مزید پابندوں کا بھی انتباہ کیا ہے۔

دو مئی کو ایبٹ آباد میں امریکی اسپیشل فورسز کی یک طرفہ خفیہ کارروائی کے بعد پاکستان نے ملک میں موجود امریکی فوجیوں کی تعداد میں بھی نمایاں کمی کر دی ہے جس کی امریکی عہدے دار بھی تصدیق کرچکے ہیں۔

XS
SM
MD
LG