رسائی کے لنکس

تفتیش کا انتہائی سخت طریقہٴکار، ’سی آئی اے‘ کی رپورٹ جاری


سینیٹر ڈائن فائنسٹائن
سینیٹر ڈائن فائنسٹائن

سینیٹ انٹیلی جنس کمیٹی نے منگل کے روز سی آئی اے کی طرف سے تفتیشی طریقہٴکار کا ایک تفصیلی خلاصہ جاری کیا ہے۔۔۔۔ یہ سارا طریقہٴکار ایسا ہے جسے سی آئی اے کے ناقدین اور حقوقِ انسانی کی تنظیمیں اذیت ناک قرار دیتی ہیں

امریکی سینیٹ کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 11 ستمبر 2001ء کے دہشت گرد حملوں کے بعد، سینٹرل انٹیلی جنس ایجنسی (سی آئی اے) نے تفتیش کے دوران مشتبہ دہشت گردوں کو اذیت دی، ’جو عمل ملک کے اقدار کے منافی تھا‘۔

سینیٹ انٹیلی جنس کمیٹی نے منگل کو ایک رپورٹ جاری کی ہے، جس میں بتایا گیا ہے کہ سی آئی اے نے اُن قیدیوں کے ساتھ غلط سلوک برتا جن پر دہشت گردی کا الزام تھا؛ اور، اختیار کیے گئے’اضافہ شدہ تفتیش کے طریقوں‘ کے مؤثر ہونے کے بارے میں کانگریس اور امریکی عوام کو گمراہ کیا گیا، جس میں قیدیوں کو چھوٹی کوٹھڑی میں بند رکھنا، نیند نہ کرنے دینا اور ’واٹر بورڈنگ‘ شامل ہے، جس میں ڈوبے کا احساس دلایا جاتا ہے۔

رپورٹ جاری کرتے ہوئے، سینیٹر ڈائن فائن سٹائن نے کہا کہ ’اس اسطلاح کےعام معنی کے عین مطابق، سی آئی اے نے قیدیوں کو اذیت پہنچائی‘۔


بقول اُن کے، اِس سے یہ پتا چلتا ہے کہ ایک دہائی قبل، ’سی آئی اے کے اختیار کردہ حربے، ہمارے اقدار اور ہماری تاریخ پر ایک دھبہ ہیں‘۔


صدر براک اوباما نے کہا کہ اُن کے خیال میں ’یہ انتہائی سخت طریقے نہ صرف بحیثت قوم ہمارے اقدار کے برخلاف تھے، بلکہ انسداد دہشت گردی کی ہمارے وسیع تر کوششوں یا ہمارے قومی سلامتی کے مفادات کو بچانے میں اِن سے کوئی مدد نہیں ملی‘۔

صدر نے کہا کہ ’ہمیں اس بات کو یقینی بنانا ہوگا کہ پھر کبھی ایسے طریقوں کو اختیار نہ کیا جائے‘۔

سنہ 2009ء میں عہدہٴصدارت سنبھالنے کے بعد، صدر براک اوباما نے نام نہاد ’اضافہ شدہ تفتیشی طریقوں‘ کے استعمال پر پابندی لگا دی تھی، جن کی اُن کے پیش رو، جارج ڈبلیو بش نے 2001ء کے دہشت گرد حملوں کے بعد اجازت دی تھی، جن میں تقریباً 3000 افراد ہلاک ہوئے تھے۔

رپورٹ جاری ہونے کے بعد، سی آئی اے کے موجودہ ڈائریکٹر، جان برینن نے تسلیم کیا کہ ایک عشرہ قبل مشتبہ دہشت گردوں سے تفتیش کے دوران، ادارے نے اُن اعلیٰ اقدار کی پاسداری نہیں کی، جنھیں ہم نے بڑی جدوجہد کے بعد اپنے لیے متعین کیا تھا۔

برینن نے کہا کہ سی آئی اے نے ’ان غلطیوں سے سیکھا ہے‘۔


اُنھوں نے سینیٹ کی طرف سے یہ نتیجہ اخذ کرنے سے اختلاف کیا کہ تفتیش غیر مؤثر رہی۔ اُنھوں نے کہا کہ برخلاف اِس کے، ’یہ (طریقے) دہشت گرد حملوں کی سازشیں روکنے، دہشت گردوں کو پکڑنے اور اپنی زندگی محفوظ بنانے میں معاون ثابت ہوئے‘۔

تاہم، سینیٹر جان مک کین، جنھیں چار عشرے قبل شمالی ویتنام کی قید میں خود اذیت دی گئی تھی، اس خیال کو مسترد کیا۔

بقول اُن کے، ’اذیت کے باعث اُگلی جانے والی اطلاعات گمراہ کُن ہوتی ہیں، بجائے ایسی معلومات کے جس پر کوئی کارآمد قدم اٹھایا جاسکے‘۔

سی آئی اے کے سابق سربراہ، مائیکل ہائیڈن نے اِس تاثر کو مسترد کیا کہ سی آئی اے نے اپنے پروگرام کے بارے میں کسی غلط بیانی سے کام لیا تھا۔

اُنھوں نے کہا کہ یہ رپورٹ جاری کرنے کے باعث وہ ممالک جنھوں نے ماضی میں امریکہ کا ساتھ دیا، وہ دہشت گردوں کے خلاف لڑائی میں امریکہ کے ساتھ مستقبل میں تعاون کرنے پر تیار نہیں ہوں گے۔

یہ سارا طریقہٴکار ایسا ہے جسے سی آئی اے کے ناقدین اور حقوقِ انسانی کی تنظیمیں اذیت ناک قرار دیتی ہیں۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یہ تفتیشی حربے اُس سے کہیں ’زیادہ بھیانک ہیں‘ جتنے سی آئی اے نے ظاہر کیے تھے، اور یوں، اُس نے کانگریس اور وائٹ ہاؤس کو اپنی سرگرمیوں کے بارے میں ’گمراہ‘ کیا۔

XS
SM
MD
LG