رسائی کے لنکس

برکینا فاسو: عبوری حکومت کی بحالی کے لیے کوششیں


صدارتی محافظ دستے کے سپاہیوں نے بدھ کو کابینہ کے ایک اجلاس میں گھس کر کفیندو اور وزیروں کو اغوا کر کے عبوری حکومت کی مدت کو دھرم برھم کر دیا جو 11 اکتوبر کو ہونے والے انتخابات کے ساتھ ہی ختم ہو جانی تھی۔

مغربی افریقی ملک برکینا فاسو میں صدر مائیکل کفیندو کی قیادت میں عبوری حکومت کو بحال کیا جائے گا ۔ اس بات کا اعلان ہمسایہ ملک بینن کے رہنما نے ہفتے کو کیا جسے فوجی بغاوت برپا کرنے والے رہنماؤں پر مظاہرین کی فتح قرار دیا جا رہا ہے۔

فوجی اہلکاروں اور مظاہرین کے درمیان پرتشدد جھڑپوں کے خاتمے اور اکتوبر میں ہونے والے صدارتی انتخاب کو ممکن بنانے کے لیے افریقہ کے رہنماؤں نے فوجی ٹولے کے سربراہ جنرل گلبرٹ دائیندری سے بطور ثالث مذاکرات کیے۔

بینن کے رہنما تھامس بونی یائی نے دائیندری کے ساتھ مذاکرات کے تیسرے دور کے اختتام پر نامہ نگاروں کو بتایا کہ "ہم دوبارہ یہ امید کر سکتے ہیں کہ ہم اس عبوری حکومت کو بحال کر رہے ہیں جس پر پیش رفت ہو رہی تھی، عبوری غیر فوجی حکومت کی قیادت مائیکل کفیندو کریں گے"۔ انہوں نے مزید کہا کہ،" اس اچھی خبر کی مزید تفصیل اتوار کو فراہم کی جائے گی"۔

تاحال یہ واضح نہیں ہے کہ اس مبینہ معاہدے میں دائیندری کے لیے معافی بھی شامل ہے یا نہیں۔ وہ ایک نام نہاد جنرل ہیں جنہوں نے برطرف ہونے والے صدر بلیز کامپاؤر کے انٹلیجنس چیف کے طور پر کام کیا اور یہ بھی ابھی واضح نہیں ہے آیا انتخاب کے نظام الاوقات کو بحال کیا گیا ہے یا نہیں۔

دائیندری اس بات سے انکاری نہیں کہ ابتدائی معاہدہ طے پا گیا ہے۔ انہوں نے اجلاس کے بعد نامہ نگاروں کو بتایا کہ "میں نے ہمیشہ یہ کہا ہے کہ میں اقتدار سے چمٹا رہنا نہیں چاہتا، یہ صرف (معاہدے) کی شرائط کا سوال ہے"۔

صدارتی محافظ دستے کے سپاہیوں نے بدھ کو کابینہ کے ایک اجلاس میں گھس کر کفیندو اور وزیروں کو اغوا کر کے عبوری حکومت کی مدت کو دھرم برھم کر دیا جو 11 اکتوبر کو ہونے والے انتخابات کے ساتھ ہی ختم ہو جانی تھی۔

کفیندو کو اب رہا کر دیا گیا ہے اور وہ اپنے گھر میں مقیم ہیں جہاں انہوں نے ثالثوں سے ملاقات کی۔ انہوں نے جمعرات کو اس بغاوت کے اعلان کے بعد سرکاری طور پر اس کے بارے میں کوئی بات نہیں کی ہے۔ وزیر اعظم اسحاق زیدا جو اس بغاوت کی ذمہ دار تنظیم کے رکن ہیں کے بارے میں کوئی اطلاع نہیں ہے کہ وہ اب کس حال میں ہیں۔

تاہم ان اعلانات کی وجہ سے ان مظاہروں پر کوئی فرق نہیں پڑا ہے جو فوجی بغاوت کے بعد سے جاری ہیں۔

دارالحکومت اوگادوگوؤ میں سیکڑوں مظاہرین نے ہفتے کو ٹائر جلائے اور سڑکوں پر رکاوٹیں کھڑی کر دیں تاہم رات کو کرفیو نافذ ہونے کے بعد سڑکیں ویران ہو گئیں۔

فوجی بغاوت کے اعلان کے بعد سے اب تک شہر میں فوجی سپاہیوں کے ساتھ ہونے والی جھڑپوں کے دوران کم ازکم 10 افراد ہلاک جب کہ 100 سے زائد زخمی ہو گئے ہیں ان میں زیادہ تر افراد گولیاں لگنے سے زخمی ہوئے۔

XS
SM
MD
LG