رسائی کے لنکس

پینے کے صاف پانی کا عالمی دن اور براعظم افریقہ


پینے کے صاف پانی کا عالمی دن اور براعظم افریقہ
پینے کے صاف پانی کا عالمی دن اور براعظم افریقہ

پینے کے صاف پانی کی دستیابی اور فراہمی ایک ایسا مسئلہ ہے جس کا سامنا دنیاکے اکثر ترقی پذیر ملکوں کو کرنا پڑرہا ہے ۔ اس مسئلے کی سنگینی اور اہمیت کے پیش نظر اقوام متحدہ کے تحت ہر سال 22 مارچ کو دنیا بھر میں پانی کے عالمی دن کے طور پر منایا جا تاہے۔اس سال کے لیے عالمی ادارے کا موضوع ہے شہری آبادی اور پانی۔

عالمی اعدادوشمار یہ ظاہر کرتے ہیں کہ دنیا کی آدھی آبادی شہروں میں رہائش پذیر ہے۔ جبکہ بر اعظم افریقہ میں شہری آبادی کا تناسب 70 فیصد کے لگ بھگ ہے ۔ جو دنیا بھر میں سب سے زیادہ ہے۔ مگر افریقہ کے زیادہ تر شہری علاقوں میں آبادی کا بیشتر حصہ غریب بستیوں اور جھونپڑیوں میں رہتا ہے۔ جہاں پینے کے صاف پانی کا حصول ایک اہم مسئلہ ہے ۔

جنوبی افریقہ کے شہر جوہانسبرگ کے مضافات میں بسی مکاوس نامی اس آبادی کے 12 ہزار کے قریب رہائشیوں کے پاس پینے کے صاف پانی کی سہولت موجود نہیں۔ لہذا انہیں اپنی بستی سے باہر ان نلکوں سے پانی بھرنا پڑتا ہے جو شہر کی انتظامیہ نے لگائے ہیں۔

یہ بستی 20 سال پہلے اس وقت وجود میں آئی تھی جب یہاں موجود سونے کی کان بند ہو گئی تھی۔ اس زمین کے مالکان اب یہاں تعمیرات کا کام کرنا چاہتے ہیں۔ چار سال پہلے یہاں سے سینکڑوں رہائشیوں کو نکال کر 40 کلومیٹر دور ایک جگہ پر زبردستی منتقل کر دیا گیا تھا لیکن روزگار ملنے کے باعث بہت سے لوگ واپس آگئے۔

ایملی اینٹاکے اپنے دو سال کے بیٹے کے ساتھ یہاں رہ رہی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ شہر کی انتظامیہ کے نلکے یہاں سے بہت دور ہیں اس لیے وہ مقامی لوگوں کی طرف سے ممنوعہ طور پر لگائے نلکوں سے پانی لیتی ہیں۔

حکومت کی کوششوں کے باوجود اب بھی 50 لاکھ کے قریب لوگ پانی اور صفائی جیسی عام سہولیات سے محروم ہیں۔ اس لیے مقامی لوگوں نے مکاوس میں حالات بہتر بنانے کے لیے اپنی آپ کے تحت ایک تنظیم بنائی ہے ۔ ناویاکے ایم پامبو اس تنظیم کے چیئرمین ہیں۔

ان کاکہنا ہے کہ حکومت پچھلے 17 سال سے صرف وعدے کر رہی ہے۔ لیکن عملی طور پر کچھ نہیں ہو سکا۔اس کے لیے مقامی لوگوں نے بھر پور احتجاج بھی کیا اور عدالتی فیصلے بھی لیے گئے ، جس کے مطابق جنوبی افریقہ کے آئین میں عوام کو پانی ، صحت اور صفائی کی سہولیات مہیا کرنا مقامی حکومت کی ذمہ داری ہے لیکن ان پر عمل درآمد نا ہونے کے برابر ہے۔

جوہانسبرگ کی وٹواٹر سٹینڈ یونیورسٹی کی پروفیسر ماری ہنسا مائر کا کہنا ہے کہ ان مظاہروں کے پیچھے بہت سے دوسرے عوامل بھی کار فرما ہیں۔

ماری کا کہنا ہے کہ یہاں کے لوگ کا خیال ہے کہ اگر آپ ان بے قاعدہ آبادیوں کو پانی اور دوسری سہولیات فراہم کریں گے تو لوگ دوسری چیزوں کے لیے بھی مقدمات دائر کریں گے تاکہ انھیں حکومت سے دوسری سہولیات اور پھر گھر بھی مل جائے ۔

ان کاکہنا ہے کہ حکومت اپنے شہروں کو سرمایہ کاروں کے لیے صاف اور خوبصورت بنانا چاہتی ہے لیکن یہ کچی آبادیاں ایک بڑا مسئلہ ہیں اس ضمن میں صرف حکومت کی کوششوں کے ساتھ مکاوس جیسی آبادیوں مین رہنے والے لوگوں کے رویوں کو بھی بدلنا ہوگا تاکہ وہ اپنی زندگیاں خود بھی بہتر بنا سکیٕں۔

XS
SM
MD
LG