رسائی کے لنکس

انسانی ارتقا اور آب و ہوا کی تبدیلی کا تعلق


انسان کی ارتقائی تاریخ پر ان دنوں واشنگٹن کے نیشنل ہسٹری میوزیم میں ایک نمائش جاری ہے جس میں یہ جائزہ لینے کی کوشش بھی کی گئی ہے کہ انسان نے خود کو آب وہوا کی تبدیلیوں سے کس طرح ہم آہنگ کرتے ہوئے خود کو معدوم ہونے سے بچایا تھا۔اس نمائش کے کیوریٹر رک پاٹس(Rick Potts) ہیں۔

واشنگٹن میں قائم سمتھ سونین انسٹی ٹیوشن کے علم البشریات اور نباتات کے ماہرین ربع صدی سے زیادہ عرصے سے یہ جاننے کے لیے مشرقی افریقہ میں تحقیق کررہے ہیں کہ انسان کے اباؤ اجداد نے زمین کی ساخت ا ور آب و ہوا کی تبدیلیوں کے ساتھ خود کوکس طرح ڈھالا تھا۔

پاٹس کہتے ہیں کہ جنوبی کینیا میں ایک ایسا پہاری علاقہ ہے جہاں زمینی کٹاؤ کی کئی پرتیں یہ نشان دہی کرتی ہیں کہ کسی زمانے میں وہاں ایک بہت بڑی جھیل ہوا کرتی تھی، مگر پھر وہ غائب ہوگئی۔

وہ کہتے ہیں کہ وہاں آتش فشاں پھٹا اور لاوے نے تمام سرسبز میدانوں کو ڈھانپ دیا اور جانوروں کو وہ علاقہ چھوڑ کرکہیں اور جانا پڑا۔ان کا کہنا ہے کہ اس علاقے میں ایک دریا بہتا تھا۔ وہ جھیل سے نکلتاتھا اور پھر یہ سارا علاقہ ایک طویل خشک سالی کی نذر ہوگیا۔ اس علاقے کے پہاڑی سلسلے میں تہہ در تہہ پرتیں آب وہوا میں ہون والی تبدیلیوں کی حیرت انگیز کہانی سنارہی ہیں۔

پاٹس کہتے ہیں کہ زمانہ قبل از تاریخ میں رونما ہونے والی آب وہوا کی تبدیلیاں انسان کے ارتقائی عمل میں سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہیں۔مثلاً چاروں ہاتھ پاؤں کی بجائے دوپاؤں پر چلنے کا عمل، دماغ کی افزائش اوراوزار بنانے کی صلاحیت وغیرہ۔

پاٹس کہتے ہیں کہ اب تک ہم یہ جان سکے ہیں کہ کس طرح ابتدائی دور کے انسان نے ہزاروں برسوں تک پتھر کی کلہاڑیاں استعمال کرکے خود کو حالات کے مطابق ڈھالا تھا۔مگر پھر ماحول میں آنے والی تبدیلیوں کے نتیجے میں پتھر کی کلہاڑیاں غائب ہوگئیں اور ان کی جگہ نئے چھوٹے تکنیکی طریقوں نے لے لی۔ وہ کہتے ہیں کہ اس کے بعد ہم انہیں چھوٹے چھوٹے نوکیلے پتھر تیر وں میں استعمال کرتے ہوئے دیکھتے ہیں، جن کی مدد سے وہ جانوروں کا شکار کرتے تھے اور ان تیروں سے اور بھی کئی کام لیتے تھے۔ مسٹر پاٹس کہتے ہیں کہ وہ ابتدائی دور کے انسان کی وہ نسل ہے جس نے جدید انسان نے جنم دیا تھا۔

آب وہوا کی تبدیلی اورانسانی ارتقا کے درمیان تعلق کےحوالے سے نیشنل ریسرچ کونسل میں تحقیقی عمل جاری ہے۔

اینڈریو ہل (Andrew Hill)ییل یونیورسٹی (Yale) میں علم البشریات ک پروفیسر ہیں۔وہ یہ رپورٹ مرتب کرنے والےماہرین کی اس ٹیم میں شامل تھے ۔وہ کہتے ہیں کہ آب وہوا کی تبدیلی اور انسانی ارتقا کے درمیان تعلق اورخود کو ماحول کے مطابق ڈھانے کے عمل کو زیادہ بہتر طورپر سمجھنے میں جوچیز ہماری راہ مسدود کرتی ہے، ان میں ایک اہم چیزاب تک دریافت ہونے والی باقیات اور fossil کےریکارڈ کے درمیان موجود وقفے ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ جب بھی آپ کچھ دریافت کرتے ہیں تو یہ امکان موجود ہوتا ہے کہ اس سے پہلے بھی کچھ موجود تھا جسے آپ ابھی تک تلاش نہیں کرسکے ہیں۔چنانچہ آپ حتمی طورپر اس کے ابتدا کی تاریخ کا تعین نہیں کرسکتے۔

پروفیسر ہل کا کہنا ہے کہ آپ کے پاس جتنا زیادہ مواد موجود ہوگا ،آپ اتنا ہی بہتر نتیجہ حاصل کرسکیں گے۔ہمیں اس سلسلے میں زیادہ مواد درکار ہے ۔ اور اس کے لیے ہمیں زیادہ چیزیں دریافت کرنے کی ضرورت ہے۔

پروفیسر ہل کہتے ہیں کہ ماہرین کی ٹیم نے تحقیق کے لیے مزید مقامات تلاش کرنے کی سفارش کی ہے۔وہ کہتے ہیں کہ اس سلسلے میں ریموٹ کنٹرول کی مدد سے کھوج لگانے والا آلات، مثلاً سٹیلائٹ پر نصب آلات اور بغیر پائلٹ کے جہازوں کی مدد سے ان مقامات کا بہتر طورپر پتا لگایا جاسکتا ہے، جہاں کھدائی کی ضرورت ہے۔

مسٹر ہل کہتے ہیں کہ این آرسی کی رپورٹ میں ان علاقوں میں خشک زمین، جھیلوں اور سمندروں کی تہوں میں گہرائی میں کھدائی کرکے مواد حاصل کرنے کی سفارش کی گئی ہے جہاں انسان نے اپنی ارتقائی منازل طے کی تھیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ایسا کرنے سے آپ کو جانوروں کی مزید اقسام اور تعمیرات سے متعلق نئی معلومات بھی حاصل ہوسکتی ہیں۔

پروفیسر ہل کہتے ہیں کہ انسانی باقیات(fossils) کے علاقوں کے درجہ حرارت ، نمی کے تناسب اور نباتات کے اعدادوشمار کو کمپیوٹر کی مدد سے آب و ہوا کے بنائے جانے والے نمونوں سے ہمارے اس عہد کے حوالے سے تعمیرات، ماحول اورآب وہوا کی تبدیلیوں کی سائنس کے بارے میں جاننے میں بہت مدد مل سکتی ہے۔وہ کہتے ہیں کہ ماضی کے ان ماڈلز کے ذریعے ہم اپنے مستقبل کے بارے میں زیادہ بہتر اندازے قائم کرسکتے ہیں۔

واشنگٹن کے نیچرل ہسٹری میوزیم میں انسانی ارتقا کے حوالے سے ہونےوالی نمائش کے کیوریٹر رک پاٹس ہیں۔ وہ این آرسی کی اس رپورٹ کے مصنفین میں بھی شامل ہیں جس میں انسانی ارتقا سے متعلق سائنس کے نئے تعلیمی پروگراموں کی سفارش کی گئی ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ ہماری انسانی نسل کی ارتقائی تاریخ کا کھوج لگانا،جو متنوع انسانی خاندان کے شجرے کی باقی بچ جانے والی آخری کڑی ہے، اور یہ کہ ارتقائی تاریخ کس طرح ممکنہ طورپر ہمارے مستقبل پر اثرانداز ہوسکتی ہے؟ میرے خیال میں آب و ہوا کی تبدیلی اور انسانی ارتقا سے متعلق ان چیزوں پر، جن کے بارے میں لوگوں میں بہت تجسس ہے،کام کرنے کی بہت ضرورت ہے۔

پاٹس کہتے ہیں کہ باقیات اور آب وہوا سے متعلق ریکارڈ ہمیں ان دوبنیادی اہمیت کے سوالوں کے جواب کے کچھ قریب لاسکتا ہے کہ اانسان اصل میں ہے اور مستقبل میں ہماری نسلیں خود کو آب و ہوا کی تبدیلیوں کے مطابق کس طرح ڈھالیں گی۔

XS
SM
MD
LG