رسائی کے لنکس

امدادی کارکن افغان عوام کےمہمان تھے:ہلری کلنٹن کابیان


ہمارا دل اِن دلیراورفیاض لوگوں کی ہلاکت پرافسردہ ہے اورہم اِس سفاکانہ قتل کی سخت ترین الفاظ میں مذمت کرتے ہیں

امریکی وزیرِ خارجہ ہلری کلنٹن نے افغانستان کے شمالی صوبہٴ بدخشاں میں 10امدادی طبی کارکنوں کی ہلاکت پر افسوس کا اظہار کیا ہے، جِن کی لاشیں افغان پولیس عہدے داروں نے برآمد کر لی ہیں، جِن میں سے چھ امریکی شہری تھے۔

اِس ناقابلِ بیان اور وحشیانہ تشدد کی ذمے داری طالبان نے قبول کر لی ہے۔

پیر کو جاری ہونے والے بیان میں وزیرِ خارجہ نے کہا ہےکہ یہ مرد اور خواتین غریب افغان دیہاتیوں کو مفت طبی امداد پہنچانے کی غرض سے اُس علاقے میں گئے تھے۔ اُن میں ڈاکٹر، دنداں ساز، مترجم اور ٹیکنیشن شامل تھے، جِن کا مقصد کسی حکومت پر انحصار کےا بغیر آزادانہ اور صرف انسانی ہمدردی کی بنیادوں پرکام کرنا تھا۔

اُنھوں نے کہا کہ ہلاکت سے قبل کافی دِنوں تک وہ صوبہٴ نورستان میں موتیا اور آنکھوں کی دیگر بیماریوں کا علاج کرتے رہے۔ اپنے قیام کے دوسرے مرحلے پر وہ دانداں سازی کا کلینک اور زچہ و بچہ کی صحت سے متعلق خدمات ابجا م دینا چاہتے تھے۔ اُن کے پاس کوئی اسلحہ نہیں تھا نہ ہی اُن کو اِن خدمات کے عوض کسی اجرت کی لالچ تھی۔

‘وہ افغانستان کے اِس حصے کی طرف اِس لیے سفرکرکے گئے تھے، کیونکہ وہ ضرورت مندوں کی خدمت کرنا چاہتے تھے۔ وہ افغان عوام کے مہمان تھے۔’

ہلری کلنٹن نے کہا کہ، کم از کم دو امریکی ایسے بھی تھے جنھوں نے پچھلے 30برس سے زائد عرصے سے افغانستان میں کام کیا تھا۔ اُنھوں نے سوویت تسلط کے دوران بھی کام کیا ۔ اُنھوں نے اُس وقت بھی اپنی خدمات جاری رکھیں جب قبائلی سرداروں کے درمیان درون ِ خانہ تنازعے چل رہے تھے اوروہ طالبان کے دور میں بھی خدمات انجام دے چکے تھے۔

‘لیکن، طالبان کے بقول، اُنھیں ایک دور افتادہ سڑک پر روکا گیا، جنگل کی طرف لے جایا گیا، لوٹا گیا اور ہلاک کیا گیا۔’

‘ہمارا دل اِن دلیر اور فیاض لوگوں کی ہلاکت پرافسردہ ہے۔ اور ہم اِس سفاکانہ قتل کی سخت ترین الفاظ میں مذمت کرتے ہیں۔ اور ہم طالبان کی طرف سے امدادی کارکنوں کی افغانستان میں کاروائیوں کے بارے میں جھوٹے الزامات کے بل بوتے پر اپنی غلط حرکت کا دیدہ دلیری سےدفاع کرنے کی کوشش کی مذمت کرتے ہیں۔’

امریکی وزیرِ خارجہ نے کہا کہ، دہشت گردی کا کوئی مذہب نہیں ہوتا، اور ایسی حرکات کو دنیا بھر کے تمام لوگ مسترد کرتے ہیں، جِن میں ہمارے ملک کے بیشمار مسلمان، اور افغانستان اور کہیں اور بسنے والے مسلمان لوگ سارے شامل ہیں۔

‘جیسا کہ قاہرہ میں اپنے خطاب میں صدر اوباما نے قرآنی تعلیمات کے حوالے سے کہا تھا کہ، ایک معصوم کی جان لینا گویا ایسا ہے کہ تمام انسانیت کو ہلاک کیا جائے، اور ایک معصوم کی جان بچانا ایسا ہے جیسے ساری انسانیت کو بچا لیا گیا۔ ’

اُنھوں نے کہا کہ، قتل کے واقعات سرزد کرکے طالبان نے ہمیں ایک اور مثال پیش کر دی ہے کہ وہ اپنے اوچھے نظریات کے فروغ کے لیے کچھ بھی کر گزرنے کو تیار ہیں۔ اُن کے مظالم کی داستان زبان زد ِ عام ہے۔ طالبان کے ارکان نے قبائلی زعما کو قتل کیا ہے، اسکول جاتی ہوئی بچیوں پر تیزاب پھینکا، اور اِسی موسمِ گرما میں اُنھوں نے ایک سات سالہ بچے پر الزام لگایا کہ وہ جاسوس ہے اور اُسےپھانسی دے دی۔

‘اُنھوں نے طبی رضاکاروں کے ساتھ ساتھ افغانستان میں کام کرنے والےاُن رضاکاروں کو قتل کیا جِن کا تعلق متعدد اقوام اور بین الاقوامی اتحاد سے ہے جو افغانستان کے استحکام کو قائم کرنے کی تگ و دو کررہے ہیں، جو کہ طالبان کے مؤقف کی نفی ہے، یعنی پُرامن مستقبل ، آزادی، مواقع اور وسعت کی بنیاد پر قائم مستقبل جِس میں تمام افغان لوگ دہشت گردی سے پاک سلامتی کے ماحول میں مل کر رہ سکیں۔’


‘یہی وہ بات ہے جِس کے حصول کے لیے حکومت اور افغانستان کے عوام کوشاں ہیں، یہی وہ مقصد ہے جِس کو حاصل کرنے کے لیے ہم اُن کی مدد کر رہے ہیں۔ ’

‘انتہا پسند، دنیا کو بربادی کا پیغام دینے پر مصر ہیں، جب کہ افغان عوام ، اپنے حلیفوں جِن میں امریکہ بھی شامل ہے ، کے ساتھ مل کر اُنھیں روکنے کا عزم رکھتے ہیں۔ ’

ہلری کلنٹن نے کہا کہ، ‘اِس لیے، جہاں ہم اِن دلیر امدادی کارکنوں کے نقصان پر دکھی ہیں، وہیں ہم اپنی کوششیں جاری رکھیں گے، اور افغان عوام کے لیے اِن کی مثالی بہادری، رحمدلی اور محبت کے جذبے سے سرشار ہو کرکام کرتے رہیں گے۔’

XS
SM
MD
LG