رسائی کے لنکس

ہلری کلنٹن امریکہ کی پہلی خاتون صدر نہیں بن سکیں


ہلری کلنٹن
ہلری کلنٹن

ان کے پاس وہ سیاسی تجربہ تھا جو تاریخی طور پر وائٹ ہاؤس میں جانے کا ایک اہم ذریعہ رہا ہے۔ تاہم جب ووٹروں کو انتخاب میں اپنی رائے دینے کا موقع ملا تو کلنٹن امریکہ کی پہلی خاتون صدر بننے کی کوشش میں کامیاب نا ہو سکیں۔

ڈیموکریٹک جماعت کی طرف سے صدارتی امیدوار کی نامزدگی حاصل کرنے کے عمل سے بہت پہلے سے ہلری کلنٹن ایک واضح امیدوار بن کر سامنے آئیں۔

منگل کو ہونے والے صدارتی انتخاب سے پہلے، آخر کے چند دنوں میں قومی سطح پر ہونے والی کئی عوامی جائزوں میں انہیں ڈونلڈ ٹرمپ پر تھوڑی سے برتری حاصل تھی۔ ان کے پاس وہ سیاسی تجربہ تھا جو تاریخی طور پر وائٹ ہاؤس میں جانے کا ایک اہم ذریعہ رہا ہے۔

تاہم جب ووٹروں کو انتخاب میں اپنی رائے دینے کا موقع ملا تو ہلری کلنٹن امریکہ کی پہلی خاتون صدر بننے کی کوشش میں کامیاب نا ہو سکیں۔

کلنٹن کی مہم کے سربراہ جان پوڈیسٹا نے صدارتی انتخاب کا حتمی نتیجہ سامنے آنے سے پہلے ہی نیویارک میں ان کی ریلی میں مقامی وقت کے مطابق رات دو بجے (ان کے) حامیوں سے گھر چلے جانے کے لیے کہتے ہوئے کہا کہ ابھی ووٹوں کی گنتی ہو رہی ہے اور دن کے بعد کے اوقات میں ہم اس بارے میں مزید بات کریں گے۔

پوڈیسٹا نے کہا کہ "میں چاہتا ہوں کہ اس ہال میں موجود ہر شخص کو علم ہو اور ملک بھر میں ہر فرد جو ہلری کی حمایت کرتا ہے، کو بھی علم ہو کہ آپ کی آواز اور آپ کے عزم کی ان کے لیے اور ان کے (نائب صدارت کے امیدوار ٹم کین) اور ہم سب کے لیے اہمیت کی حامل ہے اور ہمیں ان (ہلری) پر فخر ہے۔"

اس ریلی کا اہتمام جیکب جیوٹس کنونشن سنٹر میں کیا گیا تھا تاہم کلنٹن وہاں موجود نہیں تھیں۔

کلنٹن کے حامیوں نے قومی ترانہ بجا کر منگل کی شام کا آغاز ایک خوشی کے ماحول میں کیا تاہم جیسے جیسے رات گزرتی جارہی تھی تو انھوں نے آہستہ آہستہ رونما ہونے والی حقیقت کو تسلیم کرنا شروع کر دیا۔

وائس آف امریکہ کے رامون ٹیلر نے کہا کہ رات کے دوران (یہاں موجود) ہجوم کو امید کی ہلکی سے شمع نظر آئی جب ورجینیا کی ریاست کا نتیجہ کلنٹن کے حق میں آیا تاہم بعد ازاں جیسے جیسے مزید نتائج سامنے آنا شروع ہوئے تو یہ امید ختم ہوتی نظر آئی۔

نصف شب کے بعد جب کلنٹن کی جیت کا امکان کم سے کم ہوتا گیا تو بعض لوگوں نے وہاں سے باہر جانا شروع کر دیا اور ان میں سے کو ئی بھی نامہ نگاروں سے بات نہیں کرنا چاہ رہا تھا۔

اسی طرح کا ماحول فلاڈیلفیا میں ایک ریستوران میں بھی نظر آیا جہاں کلنٹن کے حامی یہ نعرہ بلند کر رہے تھے کہ "میں ان (کلنٹن) کے ساتھ ہوں!" تاہم وہ اس وقت خاموش ہو گئے جب مزید ریاستوں کی نتائج ٹرمپ کے حق میں آنا شروع ہوئے۔

وائس آف امریکہ کی کیتھرین جپسن نے کہا کہ ہجوم اس وقت دنگ رہ گیا جب یہ ریستوران رات کے لیے بند کر دیا گیا۔

کلنٹن کی مہم نے ٹرمپ کے مقابلے میں زیادہ خرچ کیا اور رضا کاروں اور کارکنوں کے حوالے سے بھی اسے برتری حاصل تھی جو ملک بھر کی ریاستوں میں ووٹروں کو قائل کرنے کے لیے کوشاں رہے اور ان دونوں باتوں سے اس تاثرکو تقویت ملی کہ وہ ٹرمپ کو شکست دے دیں گی۔

تاہم کلنٹن کو ووٹروں میں وسیع سطح پر غیر مقبولیت کے ایک چیلنج کا بھی اس وقت سامنا کرنا پڑا جب عوامی جائزوں میں حصہ لینے والوں کی اکثریت کے لیے وہ قابل اعتماد نہیں تھیں۔ جب وہ وزیر خارجہ تھیں تو ان کی طرف سے سرکاری ای میلز کے لیے ذاتی کمپیوٹر سرور کا استعمال کرنے کا معاملہ کبھی بھی ختم نا ہوا۔ یہ معاملہ صدارتی انتخاب کی مہم کے آخری ہفتوں کے دوران صدارتی امیدواروں کے مباحثوں، ٹرمپ کی مہم اور میڈیا پر بھی نمایاں رہا۔

جارج ٹاؤن یونیورسٹی کے پروفیسر عرفان نورالدین نے کہا کہ کلنٹن اور ان کی ٹیم نے ان تحفظات کو دور کرنے کی کوشش کی تاہم حتمی طور پر ایسا کرنے میں کامیا ب نا ہو سکے۔

انہوں نے کہا کہ کلنٹن سے مخاصمت کی وجہ سے دیہی علاقوں سے تعلق رکھنے والے سفید فام ووٹر اس طرح ووٹ دینے پر راغب ہوئے جس کی پہلے کوئی مثال نہیں ملتی ہے جبکہ دوسری طرف انہیں نوجوان افراد، افریقی امریکی جنہوں نے صدر براک اوباما کے صدر بننے میں مدد کی، توقع کے مطابق حمایت نا مل سکی۔

اوباما کی پہلی صدارتی مدت کے دوران کلنٹن نے بطور وزیر خارجہ کام کیا تھا اور ٹرمپ سمیت ریپبلکنز نے ان کے بارے میں یہ تاثر دیا کہ ان کا امیدوار بننا صدر اباما کی انتظامیہ کو تیسری بار جاری رکھنے کی کوشش ہے۔

ہملین یونیورسٹی کے سیاسیات کے پروفیسر ڈیوڈ شلٹز نے کہا کہ 2016 میں ڈالے گئے ووٹ انہیں 1980 کے صدارتی انتخاب کی یاد دلاتے ہیں جب ووٹروں کی ایک بڑی تعداد نے انتخابی مہم کے آخری دنوں میں کسی امیدوار کو ووٹ دینے کے بارے میں فیصلہ کرتے ہوئے اُس وقت کے موجود صدر جمی کارٹر کے مقابلے میں رونلڈ ریگن کو ووٹ دینے کا فیصلہ کیا۔

جہاں تک خواتین ووٹروں کی حمایت کا سوال تھا تو کلنٹن کو ایک برتری حاصل تھی تاہم اس صدارتی مہم کے دوران ٹرمپ کی حمایت خاص طور پر سفید فام مرد ووٹروں میں ہمیشہ سے زیادہ رہی۔

XS
SM
MD
LG