رسائی کے لنکس

کشمیر میں صحافیوں کو فرائض کی انجام دہی سے نہ روکا جائے: سی پی جے


فائل فوٹو
فائل فوٹو

‘کمیٹی ٹو پراٹیکٹ جرنلسٹس’ (سی پی جے) نے بھارتی حکام پر زور دیا ہےکہ بھارتی زیرِ انتظام کشمیر میں مظاہرین کے خلاف سرکاری کاروائیوں سے متعلق خبریں جاری کرنے پرپابندیوں کے بارے میں مقامی صحافیوں کی شکایات کا فوری طور پر ازالہ کیا جائے، جہاں، تنظیم کے بقول، اب تک 15افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔

یہ بات سی پی جے کے ایشیا پروگرام کے ڈائریکٹر، باب ڈئیٹز نے جمعے کو جاری ہونے والے ایک اخباری بیان میں کہی ۔

اِس سے قبل، سی پی جے کو ارسال کردہ اپنی عرضداشت میں دِی کشمیر پریس ایسو سی ایشن، دِی پریس گلڈ آف کشمیر، دِی کشمیر جرنلسٹس کور، دِی فوٹوگرافرز اور دِی وڈیو جرنلسٹس ایسو سی ایشن نے شکایت کی ہے کہ حکومت کی طرف سے نافذ کیے گئے کرفیو کے باعث، اِن اداروں کے اسٹاف کو صورتِ حال کی کوریج سے محروم رکھا گیا ہے۔

دِی پریس گلڈ آف کشمیر نے جمعرات کو بھیجے گئے ایک پیغام میں کہا کہ حکومت نے مقامی میڈیا پرتو پابندی لگا رکھی ہے لیکن نئی دہلی اور بھارت کے دیگر مقامات سے آنے والے صحافیوں کو تمام سہولںیم فراہم کی جارہی ہیں۔

بتایا گیا ہے کہ وہ مقامی صحافی جو قومی اور بین الاقوامی میڈیا کے لیے کام کرتے ہیں اُنھیں بھی کرفیو کےدوران کوریج کے لیے پاس حاصل کرنے اور شہر میں جا کر واقعات کی خبریں دینے میں دقتیں پیش آرہی ہیں، جب کہ نئی دہلی یا دیگر مقامات سے آنے والے اُن کے ساتھی اپنی مرضی سے گھوم پھر کر خبریں جاری کر سکتے ہیں۔

بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق، جمعے کے روز جب بی بی سی اردو سروس کے ایک صحافی ریاض مسرور اپنا کرفیو پاس لینے گئے تو پولیس نے اُنھیں روکا اور مارا پیٹا۔ بی بی سی نے بتایا کہ، زدوکوب کے باعث اُن کا بازو فریکچر ہوگیا۔

باب ڈائیٹز کے الفاظ میں ‘یہ غیر منتقی کاروائی ہے کہ کچھ صحافیوں کوتو آنے جانے کی آزادی حاصل ہو جب کہ دوسروں کو روکا جائے۔’

ایشیا پروگرام کے ڈائریکٹر کے بقول، اس بات کا کوئی جواز نہیں کہ حکام کشمیر میں نامہ نگاروں کو اپنا کام کرنے سے روکیں، چاہے وہ مقامی ہوں یا خبروں کا پیشہ ورانہ کام انجام سر انجام دینے کے لیے کہیں باہر کے علاقے سے آئے ہوں۔

آج جاری ہونے والے ایک مشترکہ بیان میں گروپ نے کہا ہے کہ حکومت کا یہ دعویٰ کہ پابندیوں میں نرمی کی گئی ہے محض ڈھکوسلہ ہے کیونکہ چند ایڈیٹروں کو کرفیو کے دوران کوریج کی اجازت حاصل ہے جب کہ رپورٹروں کو اس سے محروم رکھا جا رہا ہے۔ گروپ نے کہا ہے کہ اخباری اداروں میں سے چند ہی کو کرفیو پاس جاری کرنے اور میڈیا پر حملوں کے نتیجے میں مجبوراً 60اخبارات نے اپنی اشاعت کو معطل رکھا ہے۔ اِس دعوے کی بی بی سی کے علاوہ دیگر رپورٹوں سے بھی تصدیق ہوتی ہے۔

مقامی اور بین الاقوامی میڈیا رپورٹوں میں بتایا گیا ہے کہ کرفیو کے نفاذ اور لوگوں کی نقل و حرکت محدود کرنے کے لیے سری نگر میں ہزاروں کی تعداد میں پولیس اورنیم سرکاری سینٹرل رزوو پولیس فورس کے جوان تعینات کیے گئے ہیں۔ ایسو سی ایٹڈ پریس نے خبر دی ہے کہ نمازِ جمعہ میں شریک ہونے کے لیے آج کشمیر میں ہزاروں لوگوں نے بھارتی زیرِ انتظام کشمیر میں عائد کرفیو پابندیوں کی خلاف ورزی کی۔

XS
SM
MD
LG