رسائی کے لنکس

تین نومبر، پاکستان کرکٹ کی فتوحات کو دھندلا گیا


تین نومبر، پاکستان کرکٹ کی فتوحات کو دھندلا گیا
تین نومبر، پاکستان کرکٹ کی فتوحات کو دھندلا گیا

کرکٹ شائقین میں افسوس کے ساتھ ساتھ غصہ بھی ہے ۔ بعض شائقین تو اس حد تک اس واقعے سے مایوس ہوئے ہیں کہ ان کا کہنا ہے کہ عامر، آصف اور سلمان کو جو سزائیں دی گئی ہیں وہ بہت کم ہیں

پچھلے چار سالوں میں3نومبر کا دن پاکستان کے لئے اچھا ثابت نہیں ہوا۔ سنہ 2007ء میں اسی تاریخ پر ملک میں ایمرجنسی نافذ ہوئی تھی اور مبصرین کہتے ہیں کہ آج بھی وہی تاریخ ہے جب پاکستان کی جانب سے 1992ء کا ورلڈ کپ جیت کرحاصل ہونے والی تمام نیک نامی اور شہرت تین غیر ذمے دار کھلاڑیوں کے سبب دھول میں مل گئی۔

ایسے ملک میں جہاں کرکٹ صرف کھیل نہیں بلکہ عوام کا جنون ہے، جہاں کرکٹ ہیروز کو لیڈر بنا دیا جاتا ہے وہاں کے عوام کے لئے آج کا دن نہایت افسوس کا باعث ہے۔ اس واقعے نے کرکٹ کے حلقوں میں عجیب سے بے چینی پھیلادی ہے۔

کرکٹ شائقین میں افسوس کے ساتھ ساتھ غصہ بھی ہے ۔ بعض شائقین تو اس حد تک اس واقعے سے مایوس ہوئے ہیں کہ ان کا کہنا ہے کہ عامر، آصف اور سلمان کو جو سزائیں دی گئی ہیں وہ بہت کم ہیں۔ کراچی کی ایک ایمپائر ایسوسی ایشن کے رکن محمد ندیم صدیقی نے وی اواے کے نمائندے سے اپنے غم و غصے کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ”اٹھارہ کروڑ عوام کیلئے یہ واقعہ کسی گہرے گھاؤ سے کم نہیں کہ جن کھلاڑیوں کی جیت کیلئے وہ جھولیاں پھیلا پھیلا کر دعائیں مانگتے ہیں وہ ان کے جذبات کو محض چند ڈالرز کے عوض فروخت کرتے رہے ۔“

کرکٹ کے ایک اور شائق اور لیاقت آباد کے باسی نعیم الدین کا کہنا ہے ” اگرماضی میں کرکٹ کرپشن میں ملوث رہنے والے کھلاڑیوں کو ملک میں ہی سزا ملتی رہی ہوتی تو آج یہ دن نہ دیکھنا پڑتا کہ پوری دنیا میں ہم بدنامی کا سبب بن رہے ہیں ۔ میں تو کہتا ہوں کہ پاکستانی کھلاڑیوں کو مخاطب کرکے جسٹس کک نے جو ریمارکس دیئے ہیں وہ کروڑں دلوں کی آواز ہیں“۔

پاکستانی تاریخ گواہ ہے کہ سنہ1992 کے عالمی کپ کی فتح نے پاکستان میں کرکٹ کو عروج پر پہنچا یا۔ عوام نے عالمی کپ کو ہاتھوں میں تھامنے والے ہیرو عمران خان کو اتنی عزت دی کہ آج وہ ملک کا مقبول سیاسی لیڈر بن چکا ہے ، اگر چہ اٹھارہ کروڑ عوام میں سے بڑی تعداد ان سے سیاسی اختلافات رکھتی ہوگی لیکن ان کے کرکٹ میں کارنامے کو ہر شخص عزت کی نگاہ سے دیکھتا ہے ۔ سنہ1992 کے عالمی کپ کے بعد کرکٹ کھلاڑی ہمیشہ سے انتہائی توجہ کا مرکز بنے رہے اور یہی وجہ ہے کہ ان کی زندگی کا ہر پہلو عوام کیلئے معنی خیز بن گیا ، ہر شخص اپنے ہیروز سے متعلق زیادہ سے زیادہ معلومات حاصل کرنے کیلئے کوشاں ہوتا ہے ۔

میچ فکسنگ پاکستان کیلئے نئے الفاظ نہیں
مذکورہ تناظر میں جہاں کھلاڑیوں کی کارکردگی کو سراہا جاتا رہا ہے وہیں ان کی اچانک ناقص کارکردگی پر شکوک و شبہات بھی جنم لیتے رہے ۔ میچ فکسنگ یا اسپاٹ فکسنگ پاکستان کیلئے کوئی نئے الفاظ نہیں بلکہ نوے کی دہائی میں ٹیم کی مایوس کن کارکردگی سے بھی بہت سے الزامات لگے اور سزائیں دی گئیں ۔ پھر سال 2010ء میں بھی دورہ آسٹریلیا میں عبرتناک شکستوں کے بعد بھی وہی عمل دھرایا گیا لیکن دونوں مرتبہ ملک میں کسی سزا پر عملدرآمد نظر نہیں آیا ۔

وائس آف امریکہ کے نمائندے کی جانب سے کی گئی تحقیق کے مطابق نو ستمبرسنہ 1998 کوکرپشن کے خدشات پر جسٹس قیوم کی سربراہی میں ایک کمیشن تشکیل دیا گیا تھا جس نے تقریباً ایک سال ایک ماہ اور21دن بعد ایک رپورٹ جاری کی جس میں سابق کپتان سلیم ملک کے خلاف میچ فکسنگ کی تحقیقات کی تجویز دی گئی ۔

وسیم اکرم کے حوالے سے بھی شکوک و شبہات ظاہر کیے گئے ، فاسٹ بولر عطاالرحمن پر بھی تاحیات پابندی کی سفارش کی گئی جبکہ لیگ اسپنر مشتاق احمد کا بھی مشکوک جواریوں کے ساتھ رابطوں کا انکشاف ہوا، ان کھلاڑیوں پرجرمانہ بھی عائد کیا گیا۔ اس کےعلاوہ انضمام الحق، وقار یونس ، سعید انور اور اکرم رضا پر بھی کمیشن کے ساتھ عدم تحفظ پر جرمانہ عائد کیا گیا لیکن بعد میں ان تجاویز اور سفارشات پر عمل درآمد نہیں ہو سکا ۔

اس واقعہ کے بعد سے کھلاڑیوں کی کارکردگی پر شکوک و شبہات مزید تقویت پکڑ گئے اور دورہ آسٹریلیا میں عبرت ناک شکست کے بعد مارچ 2010ءمیں پاکستان کرکٹ بورڈ نے محمد یوسف اوریونس خان پر تاحیات پابندی عائد کرنے کے علاوہ رانا نوید الحسن ، شعیب ملک ، شاہد خان آفریدی ، کامران اکمل اور عمر اکمل پر جرمانہ عائد کیا لیکن اس بار بھی جسٹس قیوم کمیشن کی طرح ان سزاؤں پر عمل درآمد انتہائی کم نظر آیا ،یونس اور یوسف نے دوبارہ کرکٹ کھیلی اور دیگر کھلاڑیوں کا یا تو جرمانہ کم یا معاف کر دیا گیا ۔

ایسی صورتحال میں جب پے در پے شکستوں سے پاکستانی ٹیم دوچار ہوتی چلی جا رہی تھی اور جن کی وجوہات کا بھی کسی کو علم نہیں تھا کہ اگست 2010ء کے آخری ایام میں انگلینڈ کے کرکٹ گراؤنڈ لارڈز میں جاری میچ کے دوران پاکستانی کھلاڑیوں کے اسپاٹ فکسنگ میں ملوث ہونے کا انکشاف ہوا۔

آج لندن کی عدالت میں جسٹس کک نے جو ریمارکس دیئے ہیں وہ ایک طرح سے کروڑوں دلوں کی آواز بن گئے ہیں ۔ جسٹس کک نے پاکستان کرکٹرز کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ نوجوان آپ کو اپنا ہیرو تصور کرتے ہیں لیکن آپ نے پاکستانی قوم کو دھوکا دیا ،ایجنٹ مظہر مجید کی مدد سے کرکٹ کی ساکھ کو نقصان پہنچایا اور آپ کے اس عمل سے لوگ اب ہمیشہ کھیل کو شک کی نگاہ سے دیکھیں گے۔ کچھ پاؤنڈز کیلئے نو بالز کیں۔

جج نے اٹھارہ سالہ محمد عامر سے کہا کہ وہ زیادہ پڑھے لکھے نہیں اور ایک گاؤں سے تعلق رکھتے ہیں لیکن وہ بھی اپنی بے گناہی کا ٹھوس شواہد فراہم نہ کر سکے جس کا مطلب یہ کہ ان کا مقصد لالچ اور پیسہ تھا ۔ جسٹس کک نے سلمان بٹ سے بھی کہا کہ آپ کا کیئریر ختم ہو چکا ۔ جسٹس کک نے کہا کہ آپ اکثر سٹے بازی میں ملوث رہے، پاکستان کے عوام کرکٹ سے محبت کرتے ہیں،آپ نے انہیں دھوکا دیا۔ تینوں پاکستانی کھلاڑیوں سمیت ایجنٹ مظہر مجید نے برطانوی قوانین کی خلاف ورزی کی لہذا آپ کی سزا صرف اور صرف قید ہے۔

XS
SM
MD
LG