رسائی کے لنکس

نئی دہلی میںبین الاقوامی فقہ سیمینار، اسلاموفوبیا میں اضافے پر اظہارتشویش


نئی دہلی میںبین الاقوامی فقہ سیمینار، اسلاموفوبیا میں اضافے پر اظہارتشویش
نئی دہلی میںبین الاقوامی فقہ سیمینار، اسلاموفوبیا میں اضافے پر اظہارتشویش

علما نے ملکی و بین الاقوامی میڈیا کو ہدف تنقید بناتے ہوئے کہا کہ اگر مسلمان کسی واقعے میں ملوث ہوتے ہیں تو میڈیا اسے مبالغہ آرائی کے ساتھ پیش کرتا ہے اور کوئی دوسرا اس میں ملوث ہے تو اس کی سنگینی کوگھٹا کر دکھایا جاتا ہے

جامعہ ہمدرد کے کنونشن سینٹر میں منعقدہ اس سیمینار میں مقررین نے اس بات پر اظہارِ تشویش کیا کہ آج پوری دنیا میں اسلاموفوبیا میں اضافہ ہو رہا ہے اور بالخصوص دہشت گردی کی آڑ میں اسلام اور مسلمانوں کو بدنام کرنے کی مہم پر عمل کیا جا رہا ہے۔

افتتاحی خطبہ پیش کرتے ہوئے سپریم کورٹ آف انڈیا کے سابق جج سید شاہ محمود قادری نے کہا کہ فکر و خیال کی آزادی پر دنیا کے کسی بھی ملک اور دستور میں مطلق پابندی نہیں ہے، اس کے باوجود اس کا سہارا لے کر اسلام مخالف شر انگیزیاں کی جا رہی ہیں۔

انھوں نے ملکی اور بین الاقوامی قوانین پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ ان میں اقلیتوں کے حقوق کو پورا پورا تحفظ فراہم کیا گیا ہے، تاہم اس پر پوری طرح عمل نہیں ہوتا۔

آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے صدر اور ندوة العما کے ریکٹر مولانا رابع حسنی ندوی نے کہا کہ دنیا میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف اس طرح پروپیگنڈا کیا جا رہا ہے کہ اب خالص دہشت گردی کا نام جہاد بن گیا ہے۔ اسے اس طرح ذہنوں میں بٹھادیا گیا ہے کہ جہاد کا نام سنتے ہی خوف طاری ہونے لگتا ہے۔ حالانکہ دہشت گردی کے واقعات کے مطالعہ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ان سرگرمیوں کو انجام دینے والوں کی پشت پر کوئی دوسری طاقت کارفرما ہے جو ان سے ایسے جرائم کرواتی ہے، لیکن ان کا الزام مسلمانوں پر دھر دیا جاتا ہے۔

مولانا رابع حسنی ندوی نے ملکی و بین الاقوامی میڈیا کو ہدف تنقید بناتے ہوئے کہا کہ اگر مسلمان کسی واقعے میں ملوث ہوتے ہیں تو میڈیا اسے بڑھا چڑھا کر پیش کرتا ہے اور کوئی دوسرا اس میں ملوث ہے تو اس کی سنگینی کوگھٹا دیا جاتا ہے۔

انھوں نے مزید کہا کہ آج دنیا کے اکثر ملکوں میں مسلمان دوسرا بڑا مذہبی گروہ ہیں، لیکن ان کے ساتھ امتیازی سلوک اور نا انصافی کا سلسلہ جاری ہے، جس کے باعث ان کے اندر بے چینی پیدا ہو رہی ہے۔

کلیدی خطبہ پیش کرتے ہوئے اسلامک فقہ اکیڈمی کے جنرل سکریٹری خالد سیف اللہ رحمانی نے اقلیتوں کے حقوق کے تعلق سے اسلامی تعلیمات پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ اسلام میں غیر مسلموں کو مسلمانوں کے مساوی حقوق دیے گئے ہیں اور اسلامی حکومتوں میں ان کے ساتھ ہمیشہ مبنی بر انصاف رویہ رکھا گیا۔مگرآج جمہوری نظام کا غلغلہ ہے اور اگر اکثریت انصاف کا دامن چھوڑ دے اور اپنی عددی طاقت کا ہتھیار ظلم و جبر کے لیے استعمال کرنے لگے تو پھر یہ جمہوریت اکثریت کی آمریت اور استبداد کا روپ اختیار کر لیتی ہے۔ ایسی صورت میں اقلیت کو اپنی شناخت باقی رکھنا دشوار ہو جاتا ہے۔

انھوں نے مزید کہا کہ اس وقت مختلف ملکوں میں مسلمان اور دیگر لسانی اور جغرافیائی اقلیتیں اسی صورت حال سے دوچار ہیں۔

سابق رکن پارلیمنٹ سید شہاب الدین نے کہا کہ اقلیتوں کے ساتھ حسن سلوک کا سوال صر ف ہندوستان تک محدود نہیں ہے۔ دنیا کی مجموعی آبادی کا پانچواں حصہ اقلیتوں پر مشتمل ہے۔

سید شہاب الدین نے کہا کہ اسلاموفوبیا ایک ذہنی بیماری ہے۔ یورپ میں آج عملاً یہ ذہن کام کر رہا ہے کہ مسلمان ہمارا دشمن ہے۔

انھوں نے اظہارِ افسوس کرتے ہوئے کہا کہ مسلمانوں کے خلاف ہونے والی زہر افشانی کی کوئی مانیٹرنگ نہیں کی جاتی۔انھوں نے مثال دیتے ہوئے کہا کہ امریکہ میں اینٹی ڈیفیمیشن لیگ کے نام سے یہودیوں کا ایک ادارہ کام کرتا ہے جو یہودیوں کی دل آزاری کے کسی بھی واقعے کا فوری نوٹس لیتا ہے اور اس سے پوری یہودی قوم حرکت میں آجاتی ہے۔ انھوں نے مسلمانوں کو بھی ایسا ادارہ قائم کرنے کا مشورہ دیا۔

سیمینار میں بولتے ہوئے سی پی آئی لیڈر اے بی بردھن نے کہا کہ آج اقلیتوں کے ساتھ ہر سطح پر امتاز برتا جا رہا ہے۔ انھوں نے دہشت گردی کو اسلام سے جوڑنے کو ایک شرانگیز حرکت قرار دیا اور سوال کیا کہ آسام، منی پور اور ناگا لینڈ میں جو دہشت گردی جاری ہے اس میں کون ملوث ہے۔

آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے جنرل سکریٹری مولانا نظام الدین نے کہا کہ اقلیت اور اکثریت ایک سیاسی اصطلاح ہے اور اس اصطلاح نے حقوق کی ادائگی میں رکاوٹ پیدا کی ہے۔

انھوں نے مسلمانوں سے اپیل کی کہ اسلام کے خلاف جو مہم چل رہی ہے اس کا موثر جواب دیا جانا چاہیئے۔

  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

XS
SM
MD
LG