رسائی کے لنکس

امریکی اخبارات سے: انسان کی اوسط عمر میں اضافہ


(فائل)
(فائل)

لمبی عمر کے اس رجحان کی وجہ یہ بتائی گئی ہے کہ حفظان صحت، طبی سہولتوں اور بہتر خوراک تک رسائی کا معیار پوری ترقی پذیر دنیا میں بہتر ہوتا جارہاہے۔

نیویارک ٹائمز

اخبار نیویارک ٹائمز کہتا ہے کہ ساری دنیا میں انسان کی اوسط عمر میں اضافہ ہورہاہے۔ جمعرات کو جاری ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق کم خوراکی اور تپ دق جیسی چھوت کی بیماریوں سے مرنے والوں کی تعداد میں بھاری کمی آگئی ہے۔ جس کے نتیجے میں پچھلے 20 سال کے عرصے میں موت کی عالمی شرح میں فرق آگیا ہے اور لوگ لمبی عمر پانے لگے ہیں ۔ جب کہ سرطان اور دل کی بیماریوں سے اموات ہورہی ہیں۔ یہ بیماریاں امیر ملکوں میں زیادہ ہیں۔

لمبی عمر کے اس رجحان کی وجہ یہ بتائی گئی ہے کہ حفظان صحت، طبی سہولتوں اور بہتر خوراک تک رسائی کا معیار پوری ترقی پذیر دنیا میں بہتر ہوتا جارہاہے۔

1990 اور 2010 کے درمیانی عرصے میں بچوں کی اموات کی شرح آدھی سے کم ہوگئی ہے اور کم خوراکی جو 1990 میں اموات کی سب سے بڑی وجہ تھی ، اب آٹھویں نمبر پر آگئی ہے۔ 1990 تک اموات کی پچاس فی صد سے زیادہ وجہ سرطان ہوتی تھی۔ لیکن یہ شرح بڑھ کر اب دوتہائی ہوگئی ہے۔

اسی طرح ذیابیطس سے مرنے والوں کی تعداد اسی دوران دوگنی ہوگئی ہے۔

اس رپورٹ کی تیاری میں تین سے زیادہ اداروں کے ماہرین صحت نے شرکت کی۔ اس میں 180 سے زیادہ ملکوں کی آبادیوں کی بیماریوں اور شرح اموات کےبارے میں اعدادوشمار دیے گئے ہیں۔

رپورٹ کے مطابق افریقہ کے صحرائی ملکوں میں 70 فی صد سے زیادہ افراد اب بھی چھوت کی بیماریوں ، بچوں کی بیماریوں اور زچگی کے دوران لگنے والی بیماریوں سے مرتے ہیں۔ اس کے برعکس جنوبی ایشیا کے ملکوں میں یہ تناسب ایک تہائی ہے۔

جہاں تک ایڈز کے موذی مرض کا تعلق ہے، ہر سال 15 لاکھ افراد اس کا شکار ہوجاتے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق بحیثیت مجموعی لوگوں کی عمریں بڑھ گئی ہیں۔ لیکن تمباکو اب بھی خطرہ بنا ہوا ہے۔ خاص طور پر ترقی پذیر ملکوں میں ۔ اور اس کی وجہ سے سالانہ دنیا بھر میں تقریباً 60 لاکھ افراد لقمہ اجل بن جاتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ذیابیطس جیسے امراض بھی تیزی سے پھیل رہے ہیں۔

لاس اینجلس ٹائمز

امریکی سینیٹ میں Filibuster کی روایت پر کڑی تنقید کرتے ہوئے لاس اینجلس ٹائمز ایک اداریے میں کہتا ہے کہ پارلیمانی ضابطہ پارٹی بازی کی ریاکاری سے عبارت ہے، جس کی مدد سے سینیٹ میں اقلیتی پارٹی، قانون سازی، ججوں کے تقرر اور دوسرے اہم امور میں روڑے اٹکا سکتی ہے۔ کیونکہ اس کے تحت فیصلہ صرف 60 فی صد اکثریت سے ہوسکتا ہے۔ چنانچہ برسراقتدار پارٹی اس کو ترقی کی راہ میں رکاوٹ سمجھتی ہے، جسے ہٹا دینا چاہیے۔

جبکہ اقلیتی پارٹی اسے ہر قیمت پر بچانے کے لیے لڑتی ہے۔ چنانچہ وہی ارکان جب وہ اکثریت میں ہوتے ہیں ، اس کے خلاف ہوتے ہیں اوراقلیت ہوجانے کی صورت میں اس کی حمایت کرنے لگتے ہیں اور د ونوں صورتوں میں ان کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔

چنانچہ سینیٹ کے موجودہ اکثریتی لیڈر سینیٹر ہیری ریڈ نے اس ضابطے کو بدلنے کی مہم شروع کی ہے۔ وہ اسے سینیٹ کے افتتاحی دن سادہ اکثریت سے بدلنا چاہتے ہیں۔ اور لامحدود تقریر والے Filibuster کا دور واپس لانا چاہتے ہیں ۔ جس میں اگر سینیٹر کسی چیز میں رکاوٹ ڈالنا چاہتے ہیں تو وہ کھڑے ہوکر دن رات تقریر کرتے رہتے ہیں۔ اخبار کا مشورہ ہے کہ یہ کافی نہیں ہے اور اس پر بھی قید لگنی چاہیے کہ سینیٹر کتنی مرتبہ اس شق کا سہارا لے سکتے ہیں۔

شکاگو سن ٹائمز

شکاگو سن ٹائمز اپنے ایک اداریے میں کہتا ہے کہ ایک شخص ایک چھوٹی بچی کو اغوا کرکے اسے ہلاک کردیتا ہے اوراس جرم کی پاداش میں اسے عمر قید کی سزا ملتی ہے۔

لیکن اخبار کہتا ہے کہ افسوس کی بات یہ ہے کہ یہ سزا 55 سال کی تاخیر کے بعد سنائی گئی۔

اخبار کہتا ہے کہ جیک ڈینیئل نامی یہ قاتل 18 سال کا تھا جب اس نے سات سالہ ماریہ رڈیف کو ہلاک کیا تھا۔ یہ حقیقت کہ اس کے بعد یہ شخص طویل عرصے تک آزادانہ پھرتا رہا اور پچھلے سال گرفتاری اور سزا ملنے تک کسی نے اس کا کچھ نہیں بگاڑا، ماریہ کی موت کے سانحے کی سنگینی کو اور بھی افسوس ناک بناتا ہے۔

بہر حال جج نے مجرم کو زیادہ سے زیادہ سزا دے کر یہ پیغام دیا ہے کہ قتل کے مقدمے کے لیے معیاد کی کوئی قید نہیں ہے۔ کسی قاتل کو خوش فہمی میں نہیں رہنا چاہیے۔ اسے ہمیشہ یہ احساس ہونا چاہیے کہ معاملہ ختم نہیں ہوا۔

لیکن اس کے ساتھ ساتھ اخبار یہ بھی لکھتا ہے کہ اس مقدمے کی وجہ سے ایک بے اطمینانی بھی ہوتی ہے، کیونکہ قاتل کو ماریہ کے قتل کے پوری نصف صدی بعد عدالت کے کٹہرے میں لایا گیا۔ اس عرصے میں وہ لوگ مرکھپ گئے جو گواہی دے سکتے تھے۔ اور جو شہادت پیش کی گئی ہوگی ، وہ عدالت کو قبول نہ ہوئی ہوگی۔ اور استغاثہ کو مجبوراً جن باتوں کا سہارا لینا پڑا ہوگا، ان میں سنی سنائی باتیں، قیدخانے کی مخبریاں اور ماریہ کے بچپن کے اس دوست کی شہادت ہوگی جس نے ملزم کی 1950 کی ایک تصویر دیکھ کرکہاتھا کہ یہ وہی شخص ہے جسے اس نے ماریہ کے ساتھ آخری بار دیکھا تھا۔
XS
SM
MD
LG