رسائی کے لنکس

برطانیہ میں عید اور اپنا اپنا چاند


دوعیدیں کرنے کی ریت صرف شہروں تک ہی محدود نہیں بلکہ برطانیہ کی گلیوں اور محلوں میں بھی نظر آتی ہے۔

عیدالاضحی اگرچہ ہرسال ذی الحج کی دسویں تاریخ کو منائی جاتی ہے لیکن عید کا چاند چونکہ عید کا چاند ہے اس لیے کسی کسی جگہ پر کسی کسی کو ہی دکھائی دیتا ہے ۔

چاند دیکھ کر عید کرنے کی آرزو گو کہ اب بھی کہیں نہ کہیں پہلو بدلتی ہے لیکن عرصہ ہوا کہ لوگوں نےاس خواہش کولمبی تھپکی دے کر سلا دیا ہے۔ نتیجتاً عید کا چاند دیکھنے کی ذمہ داری حکام کے سپرد کر کے لوگ چاند دیکھنے کی روایت کو تقریباً بھول ہی چکے ہیں۔

لیکن معاملہ یہیں پر ختم نہیں ہوتا۔ بلکہ سچ پوچھیں تو یہیں سے پیچیدہ ہو جاتا ہے۔ کیونکہ علمائے دین عیدین کے چاند کے حوالے سے اپنا اپنا چاند دیکھنے پر مصر نظر آتے ہیں۔ بعض مسالک سعودی عرب کی پیروی کرتے ہیں اور وہیں کی رویت کے مطابق رمضان اور عید مناتے ہیں جبکہ بعض مکاتیبِ فکر کا استدلال ہے کہ اپنے ملک یا شہر میں چاند دیکھنے کے بعد عید کرنی چاہیئے ۔

ان اختلافی نظریات کی وجہ سے مغربی ممالک بالخصوص برطانیہ میں ہرسال دو عیدیں منانے کی روایت پڑ گئی ہے۔ بلکہ یہ کہنا درست ہوگا کہ دوعیدیں کرنے کی ریت صرف شہروں تک ہی محدود نہیں بلکہ یہاں کی گلیوں اور محلوں میں بھی نظر آتی ہے۔ اس بات کوآپ اس طرح سمجھ سکتے ہیں کہ آج بروز ہفتہ اگر میری عید ہے تومیرے پڑوسی اور ان کے پڑوسی کل اتوار کو عید منائیں گے۔ اسی طرح میرے محلے کی عرب کمیونٹی اور صومالی کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے پڑوسی آج عید منارہے ہیں۔

ایسے میں برسوں سے باہمی یگانگت اور اتحاد کے ساتھ مل جل کر رہنے والی مسلمان کمیونٹی عید کے روز ایک دوسرے سے نظریں چرانے پر مجبور ہو جاتی ہے۔ پاکستانی کمیونٹی میں تو یہ احساس پیدا ہورہا ہے کہ آیا انھوں نے صحیح دن عید منائی ہے یا نہیں؟

دیکھا جائے توبظاہر سیدھا سادھا نظر آنے والا معاملہ اس قدر پیچیدہ ہو گیا ہے کہ معصوم بچے اس بات کو سمجھنے سے قاصر ہیں کہ آج اگر ان کی عید ہے تو ان کے دوست کی عید کیوں نہیں ہے؟ وہ عید کی نماز پڑھنےکل کیوں جائے گا جبکہ عید کی نماز تو آج ہو چکی ہے۔ یہ موضوع اس وقت اور بھی زیادہ تکلیف دہ ہوجاتا ہے جب عید کے موقع پراسکول سے بچوں کو دو مختلف دنوں میں عید کی چھٹی دلوائی جاتی ہے ۔

بات صرف بچوں کو مطمئن کرنے کی نہیں ہے۔ بلکہ دو عید منانے کے حوالے سے سب سے بڑی مشکل یہ پیش آتی ہے کہ عید کی نماز کی ادائیگی صرف اپنے ہی مکتب فکر کی مسجد میں ادا کی جاسکتی ہے۔کیونکہ اکثرمحلے کی مسجد اس روز سنسان دکھائی دیتی ہے جبکہ اسی علاقے کی دیگر مساجد میں جگہ کی کمی کے باعث مسجد سے باہر نمازیوں کی بڑی لمبی لمبی قطاریں نظر آتی ہیں اور اکثر مساجد میں نماز کی ادائیگی کا سلسلہ سہ پہر تک جاری رہتا ہے۔

لیکن چاند کے معاملے پر اختلاف برائے اختلاف کا معاملہ گرما گرم رہتا ہے اور یہ موضوع کئی دن تک زیر بحث رہتا ہے۔ بلکہ یہاں تک دعوی کئے جاتے ہیں کہ ہر سال کی طرح اس سال بھی ہماری مسجد میں عید کے دن نمازیوں کی تعداد دوسرے فرقے کی مسجد کے نمازیوں کے مقابلے میں دوگنی رہی ۔

عیدالاضحی قربانی کے جذبے کے احساس سے منسلک ہے۔ یہی وہ جذبہ ہے جو حکم خداوندی کے سامنے سب کچھ نثار کرنے کی ہمت پیدا کرتا ہے۔ اسی جذبے نے پیغمبر حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اپنے پیارے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ اسلام کے گلے پرچھری چلانے کی جرات عطا کی تھی۔ یہ تو پیغمبر علیہ اسلام کی آزمائش تھی جس میں اللہ نےان کوکامیاب کیا اور حضرت اسماعیل کی جگہ ایک دنبہ بھیج دیا۔

اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے سب کچھ قربان کرنے والے لوگ کل بھی تھے اور آج بھی ہیں اور ہمیشہ رہیں گے۔ فرمان الہی ہے کہ 'اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رہو اور تفرقے میں مت پڑو'۔ اخوت، مساوات اور بھائی چارہ کے ساتھ اتحاد قائم رکھنا ہی اسلام کی تعلیمات ہیں لیکن ہرسال عیدین کے موقع پر جب امت مسلمہ کو اس کی زیادہ ضرورت ہوتی تو لوگ اپنے نظریات کی قربانی دینے سےکیوں اتنا گھبراتے ہیں؟

XS
SM
MD
LG