رسائی کے لنکس

پاکستان میں عیدکی تیاریاں مکمل، گلی محلے جانوروں سے سج گئے


پاکستان میں عیدکی تیاریاں مکمل، گلی محلے جانوروں سے سج گئے
پاکستان میں عیدکی تیاریاں مکمل، گلی محلے جانوروں سے سج گئے

کراچی کے رہائشی بھی ملک کے دیگر شہر والوں کی طرح کل یعنی بدھ کو عید منا رہے ہیں۔ ابھی رات کا کچھ ہی حصہ گزرا ہے مگر ہر طرف عید کی رونق زوروں پر ہے۔ گلی گلی قربانی کے جانوروں کی بھرمار ہے۔ حتیٰ کہ گھروں کے آگے معمول کی طرح گاڑیاں بھی کھڑی کرنے کی جگہ نہیں بچی۔ نوجوان ہیں کہ سرشام ہی گائے اور بکرے بکریاں ٹہلانے کے شوق میں گھروں سے نکل پڑے ہیں۔بغلی سڑکوں پر جانوروں کو دوڑانے اور ان کی ریس لگانا عام سی بات ہے۔ بھوسا، کٹی، چوکر، پتے ، کھل، لوسن ، بھوسی، جو اور چارے والوں کی دکانوں پر گاہکوں کا رش ہے۔ دکاندا ر کو بات کرنے کی فرصت نہیں۔

خواتین عید پر تو رات بھر شاپنگ کرتی ہی ہیں اب کی بار عید الاضحی پر بھی ان کا یہی حال ہے۔ مارکیٹس بھری پڑی ہیں خواتین خریداروں سے۔ ادھر گھر کے مرد ہیں کہ انہیں ابھی سے نئی الجھنوں نے گھیر لیا ہے۔ صبح سب سے پہلے کس مسجد میں نماز جلدی ہوگی، کتنے بجے جانور ذبح کیا جائے، قصاب کا کیا ہوگا، چھریوں پر دھار لگی کہ نہیں، جانور ذبح ہوتے ہی کلیجی گردے گھر آئیں گے لہذا ادرک، لہسن ، پیاز اور دھنیا پودینا، لیموں لیا یا نہیں۔۔۔درجنوں سوچیں ہیں اور ایک عید!!!

فاسٹ فوڈ اور بیکریوں پر قبربانی کے گوشت کے ہنٹر بیف، بروسٹ اور تندور وں میں ران کو روسٹ کرنے کے لئے بینرز آویزاں ہیں، نوجوانوں کیلیے اپنے تئیں جانوروں کی حفاظت کے لئے ٹینٹوں میں رت جگوں کا مزہ ہی کچھ اور ہے۔ خالی پلاٹوں اور میدانوں میں مویشیوں کی اجتماعی دیکھ بھال کا کاروبار بھی عروج پر ہے۔جانوروں کے ڈاکٹروں کو بھی فرصت راس نہیں آرہی۔

عید الاضحی جہاں خوشیوں کا باعث ہے وہیں اس سال کچھ مسائل بھی اپنے ساتھ لائی ہے ۔ جانوروں کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ اس بار مہنگائی نے بہت سو ں کو قربانی سے روکے رکھا۔ جو لوگ ہر سال انفرادی جانور قربان کیا کرتے تھے ان میں سے اکثر اس بار اجتماعی قربانی میں حصہ لے رہے ہیں۔

ناگن چورنگی کے رہائشی محبوب احمد کئی سال سے انفرادی جانور خریدتے تھے مگر اس بار وہ بھی مہنگائی کا سن کر اجتماعی قربانی کررہے ہیں۔ انہوں نے وی او اے سے بات چیت کے دوران بتایا "جانور مہنگا کرنے میں اس بار میڈیا نے بہت غلط رول ادا کیا۔ منڈی لگی ہی تھی کہ خبریں آنے لگیں، سیلاب کے سبب جانور کم ہیں اس لئے مہنگائی آسمان سے باتیں کررہی ہے ، یہ خبریں سن کر لو گ منڈی جانے کا ارادہ ہی چھوڑ بیٹھے اور اجتماعی قربانی پر اکتفاکر بیٹھے ، نتیجہ یہ ہوا کہ کل خبر آئی کہ منڈی گر گئی، جانوروں کے بیوپاریوں نے اونے پونے جانور بیچنا شروع کردیئے اب جو اجتماعی قربانی میں پیسے لگا بیٹھے وہ جانور کہاں سے لائیں؟ ہماری تو پریشانی بڑھ گئی نا"

سیلاب سے بے گھر افراد ابھی بھی مشکلات کا شکار ہیں اس لئے مجموعی طور پر پورے ملک میں قربانی نسبتاً کم ہونے کے امکانات ظاہر کئے جارہے ہیں۔ اس میں بھی کوئی دو رائے نہیں کہ سیلاب ہزاروں جانوروں کو اپنے ساتھ بہا لے گیا۔

ملک گیر سطح پر تو یہ مسائل ہیں ہی شخصی سطح پر بھی کچھ مسائل ہر بار درپیش رہتے ہیں مثلاً عید کے دن کا ایک مشکل کام قصاب کی تلاش بھی ہے!! عید الاضحی پر قصاب ملنا اور وہ بھی سستے داموں اور آپ کی مرضی کے مطابق گوشت بنانے والا۔۔ جو سری ، پائے بھی بنائے اور زبان بھی آپ کو نکال کر دے دے انتہائی مشکل ہے۔ اردو کے جتنے محاورے ہیں وہ سب یہاں فٹ ہوسکتے ہیں مثلاً مرضی کا قصاب ملنا ایسا ہی ہے جیسے لوہے کے چنے چبانا ، جوئے شیر لانا، دانتوں تلے پسینہ آجانا وغیرہ وغیرہ ۔

دراصل عید الاضحی پرقربانی کے جانوروں کی تعداد کے مقابلے میں قصابوں کی تعداد اونٹ کے منہ میں زیرہ کے مترادف ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اکثر لوگ موسمی قصابوں یا اناڑی قصابوں کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں ۔ اس مسئلے کا حل یوں نکالا جاتا ہے کہ ایڈوانس بکنگ کرائی جاتی ہے۔ گویا قصاب اس دن کے بادشاہ ہوتے ہیں، چھری پھیر کر اور ابھی آیا کہہ کر چل دیتے ہیں اور پھر گھنٹوں راہ دیکھتے رہو۔

پھر بڑھتی ہوئی مہنگائی میں جہاں اور چیزوں کے دام بڑھا دیئے وہیں قصابوں کے ریٹ بھی آسمان سے باتیں کررہے ہیں۔ پچھلے سال گائے کی قربانی کے نرخ 1800 روپے تھے اب یہ ریٹ ڈھائی ہزار سے تین اور کہیں کہیں ساڑھے تین ہزار ہوگئے ہیں۔

باقی ساری باتیں تو ایک طرف مہنگائی نے گوشت کی کٹائی کے وقت استعمال ہونے والی چٹائی کوبھی نہیں چھوڑا جو چٹائی پچھلے سال 75یا 100 روپے میں فروخت ہورہی تھی وہی چٹائی اس سال 150اور 200 روپے میں بک رہی ہے۔ چٹائی کی بات چلی ہے تو مڈی کا بھی کچھ ذکر ہوجائے۔ گوشت کاٹنے کے لئے استعمال ہونے والی لکڑی کی مڈی کی قیمت میں بھی بیس سے پچیس فیصد اضافہ ہوگیا ہے۔ اس وقت چھوٹے سائز کی مڈی پونے دوسوروپے سے ڈھائی سو روپے ، درمیانے سائز کی ڈھائی سو سے ساڑھے تین سوروپے اور بڑے سائز کی مڈی پانچ سو روپے میں مل رہی ہے۔

خیر کچھ بھی کہہ لیجئے ۔۔۔ عید تو عید ہی ہے۔ گھر کے بڑے بوڑھے جہاں عید کی صبح کے مسائل سے نمٹنے کے طریقوں پر غور کررہے ہیں وہیں بچے ان سب باتوں سے بیگانہ ہوکر یہ سوچنے میں مگن ہیں کہ کس کا جانور ٹہل چکا ہے اور کس کا ابھی ٹہلانا باقی ہے۔ آج جانوروں کو ٹہلانا ان کا محبوب مشغلہ جو ٹھہرا۔ انہیں بھی معلوم ہے کہ کل اس وقت سب جانور گم ہوجائیں گے اور کل لوگ دن بھر کی قربانی اور گوشت بانٹ بانٹ کر تھک گئے ہوں گے.

ہاں البتہ پرسوں کی رات پھر رونق والی ہوگی، نصف سے زائد گھروں میں دوپہر کے کھانے میں گوشت والے آئٹمز کی بھر مار ہوگی تو رات کو گھر گھر باربی کیو کی محفلیں سجی ہوں گی۔ گھروں میں قریبی رشتے داروں کا جم گھٹا ہوگا، شامی کباب ، گولہ کباب، ریشمی کباب، سیخ کباب، چپلی کباب ، تکہ بوٹی ، ملائی بوٹی۔۔۔ اور نہ جانے کون کون سے کبابوں کی خوشبوئیں اٹھ رہی ہوں گی۔

ایسے میں ایک خیال ہونٹوں پر مسکراہٹ چھوڑ جاتا ہے کہ ہم پہلے گوشت کی بوٹیاں بناتے ہیں، پھر ان کا قیمہ بناتے ہیں اور آخر میں پھر گوشت کی بوٹیاں جوڑنے بیٹھ جاتے ہیں.

XS
SM
MD
LG