رسائی کے لنکس

چار کروڑ غیر مصدقہ ووٹرز: غلطیاں دور کرنے کے لیے الیکشن کمیشن متحرک


چار کروڑ غیر مصدقہ ووٹرز: غلطیاں دور کرنے کے لیے الیکشن کمیشن متحرک
چار کروڑ غیر مصدقہ ووٹرز: غلطیاں دور کرنے کے لیے الیکشن کمیشن متحرک

قومی ڈیٹا بیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا)کے ڈپٹی ڈائریکٹر طارق ملک کا کہنا ہے کہ الیکشن کمیشن نےتازہ ترین اعداد و شمار اکٹھے کرنے کے لیے نادرا سے رابطہ کیا ہے، جِس سے مراد یہ ہے کہ الیکشن کمیشن اپنی ووٹروں کی فہرست کو ’اپڈیٹ ‘کرنے کا خواہاں ہے، جس کے بارے میں کہا جاتا ہے اُس میں کئی طرح کی کمی بیشیاں پائی جاتی ہے۔

منگل کو’وائس آف امریکہ‘کے پروگرام ’اِن دِی نیوز‘ میں گفتگو کرتے ہوئے، طارق ملک نے بتایا کہ سیاسی جماعتوں کے خدشات تھے کہ 2007-08 کی ووٹر لسٹ جس میں 2002ء کی ووٹر لسٹوں کو ضم کیا گیا تھا اُس میں ’غلطیاں، ایک ہی نام کا دوبار اندراج اوردوسری بے قائدگیاں‘ ہیں، جس بات سے، اُن کے بقول،’ انکار نہیں‘۔

اُن سے پاکستان کی انتخابی فہرست کے معمے پر بات کی گئی ِجس کے بارے میں یہ دعویٰ سامنے آیا ہے کہ اُس میں چار کروڑ کے قریب ایسے ووٹر ہیں جو درحقیقت وجود نہیں رکھتے، جس بنا پر مختلف سیاست دانوں نے عدالتِ عظمیٰ میں نئی پٹیشن دائر کی ہے۔

ایک سوال کے جواب میں نادرا کے عہدے دار نے بتایا کہ2008ء کے انتخابات سے قبل ادارے نے نشاندہی کی تھی کہ اُس وقت لگ بھگ 50سے55فی صد بالغ آبادی رجسٹرڈ تھی، جس کے پاس قومی شناختی کارڈ تھے، جب کہ آج 90 فی صد سے زیادہ لوگوں کے پاس شناختی کارڈ ہیں۔ اُن کے بقول، نادرا اب تک 84ملین آبادی کو شناختی کارڈ بنا کر دے چکا ہے۔

’نادرا نے مطالبہ کیا ہے کہ الیکشن کمیشن ہمیں لسٹ دے دے اورہم اُس کو شہریوں کے ڈیٹا بیس کے ساتھ reconcileکرلیں ۔ جب ہم نے تصدیق کی تو معلوم ہوا کہ سیاسی جماعتوں کے خدشات درست تھےاور تقریباً 15ملین ایسے لوگ تھے جن کا شناختی کارڈ کا کوئی ریکارڈ نہیں ہے۔ اُس کے علاوہ بہت سی duplicationsتھیں جو دو ملین سے زیادہ تھیں۔ پھر ناقص شناختی کارڈوں کا پتا چلا، ایڈریس کی غلطیاں پتا لگیں، پھر جنس کی نوعیت کی بے قائدگیاں تھیں۔ ‘

پہلے سے اٹھائے گئے اقدامات کے سلسلے میں طارق ملک نے ایک رپورٹ کا حوالہ دیا، جِس میں پہلے قدم کے طور پر ڈیٹا کی توثیق کرکے الیکشن کمیشن کو دینا شامل تھا؛ دوسرے قدم کے طور پر دونوں قومی اداروں کولوگوں کے دروازوں پر جاکر تصدیق کا کام بجا لانا تھا، جس حوالے سے ملک کے چار اضلاع میں ایک پائلٹ پراجیکٹ شروع کیا گیا، جس کے، اُن کے بقول،’ حوصلہ افزا نتائج سامنے آئے‘۔ تیسرے قدم کے طور پر، فہرستیں قانون کے مطابق متعلقہ حلقوں میں لگائی جانی تھیں تاکہ اُن پر اعتراضات سامنے آئیں۔

اِس سے قبل، الیکشن کمیشن کے ترجمان، خورشید عالم نے بتایا کہ 2002ء کی ووٹر لسٹ پرانے قومی شناختی کارڈ کے مطابق تیار کی گئی تھی۔ پھر 2007ء میں یہ کوشش کی گئی کہ کمپیوٹرائزڈ شناخی کارڈ کی بنیاد پر ووٹرلسٹ بنائی جائے، کیونکہ ہو یہ رہا تھا کہ اُس وقت کسی کے پاس نیا تو کسی کے پاس پرانا شناختی کارڈ تھا۔ لیکن 2006ء میں جب بات چل ہی رہی تھی کہ اُس وقت کی حکومت نے ہدایت دی کہ پرانا شناختی کارڈ بھی چلے گا۔ اور2007ء میں جب لیکشن کمیشن نے لسٹ بنائی تو اُس میں پانچ کروڑ 40لاکھ ووٹر بنے جس بات پر معاملہ عدالتِ عظمیٰ تک جا پہنچا جہاں سے یہ حکم جاری ہوا کہ 2002ء کے اعداد کو 2007ء کی فہرست میں ڈال دیا جائے اور ایک جامع لسٹ تیار کی جائے۔

تجزیہ کار احمد بلال محبوب نے بتایا کہ 2006ء میں جو انتخابی فہرستیں بنائی گئی تھیں اُن پر ایک ارب روپے سے زیادہ لاگت آئی، اور اُن کے بقول، یہ فہرست پاکستان کی انتخابی تاریخ کا ایک شرمناک باب ہے جس میں غلطیاں در غلطیاں ہیں۔ اُن کے الفاظ میں: ’ایک ایسی ووٹر فہرست تیار ہوئی جس میں 40فی صد غیر مصدقہ ووٹ شامل تھے۔‘

احمد بلال کے بقول، ’اِس سے ایک اور چیز بھی کھل کر سامنے آئی کہ الیکشن کمیشن ایک آزاد ادارہ نہیں بلکہ ایک طابع ادارہ ہے، جو اُس قومی ادارے کی مقصدیت کو فوت کر دیتا ہے۔ جس کے بعد، حکومت کی دخل اندازی کی ایک شرمناک داستان ہے۔ پھر سپریم کورٹ کو بھی ذمہ داری قبول کرنی چاہیئے جس کی ہدایت پر نئی اور پرانی فہرستیں آپس میں ملا دی گئیں، اور یہ فہرست قومی انتخابات کے لیے استعمال ہوئی۔‘

الیکشن کمیشن کے سابق سکریٹری کنور دلشاد احمد نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ 2002ء کی ووٹر فہرست 1998ء کی مردم شماری کی بنیاد پر تیار کی گئی تھی، جو کہ، اُن کے بقول، نادرا نے تیار کی تھی، جس کے تحت 2002ء کے انتخابات ہوئے تھے۔

تفصیل کے لیے آڈیو رپورٹ سنیئے:

XS
SM
MD
LG