رسائی کے لنکس

دماغ کی بیٹری


دماغ کی بیٹری
دماغ کی بیٹری

ان افراد کے لیے ، جنہیں بات ذرا دیر سے سمجھ آتی ہے، یا کچھ سیکھنے میں دشواری کا سامنا کرنا پڑتا ہے، یا وہ کام کاج میں دوسروں کی نسبت سست ہوتے ہیں ، اچھی خبر یہ ہے کہ سائنس دانوں نے بیٹری سے چلنے والی ایک خصوصی الیکٹرانک ٹوپی تیار کی ہے۔ جسے پہننے سے دماغی صلاحیتوں میں تیزی آ سکتی ہے۔

اب آپ کو اپنی دماغی صلاحیتیں بڑھانے کے لیے بادام اور ٹانک کھانے اور دماغی ورزشیں کرنے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ سائنس دانوں نے بیٹری سے چلنے والی ایک الیکٹرانک ٹوپی تیار کرلی ہے۔ اسے پہن کر جب بٹن دبائے جاتے ہیں تودماغ کچھ یوں تیز ہوجاتا ہے جیسے کسی نے کار کے ایکسی لیٹر پر پاؤں رکھ دیا ہو۔

انسانی دماغ اپنے زیادہ تر افعال کی ادائیگی برقی پیغامات کے ذریعے کرتا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ انسانی دماغ میں اتنی بجلی موجود ہوتی ہے جس سے 20 واٹ تک کا ایک بلب جلایا جاسکتا ہے۔ دماغ اپنی ضرورت کی بجلی خود پیدا کرتا ہے۔

سائنسی ترقی کے اس دور میں رفتار کی اہمیت دن بدن بڑھتی جارہی ہے۔ انتہائی تیزی رفتار کمپیوٹر بنائے جارہے ہیں۔ ہوا سے باتیں کرنے والی گاڑیاں تیار ہورہی ہیں۔ انسان کم سے کم وقت میں دوسرے سیاروں تک پہنچنے کی کوششیں کررہاہے۔ غرض زندگی کا کوئی شعبہ ایسا نہیں ہے کہ جس میں برق رفتاری اہمیت حاصل نہ کررہی ہو۔

انسانی دماغ ایک مخصوص رفتار سے کام کرتا ہے، جس میں قدرے کمی بیشی ہوتی رہتی ہے۔ مثال کے طورپر اسے کوئی نئی چیز سیکھنے اور اسے ذہن نشین کرنے کے لیے کچھ وقت درکار ہوتا ہے۔ ماہرین کو خدشہ ہے کہ آئندہ چند عشروں میں انسانی دماغ تیزرفتاری کی اس دوڑ میں پیچھے رہ جائے گا۔ چنانچہ سائنس دان کچھ عرصے سے دماغ کی کارکردگی کی رفتار بڑھانے کے طریقوں پر تحقیق کررہے ہیں۔ اس سلسلے میں دماغ میں کمپیوٹر چپ نصب کرنے کی تجویز بھی سامنے آچکی ہے۔

دماغ کی بیٹری
دماغ کی بیٹری

کچھ عرصے سے ایسی سائنس فکشن فلمیں بھی بن رہی ہیں جن کے بعض کرداروں کی کھوپڑیوں پر کمپیوٹر پراسیسر بھی لگے ہوتے ہیں۔ لیکن برطانیہ کی آکسفورڈ یونیورسٹی کے سائنس دان ایک اور پہلو پر سوچ رہے ہیں۔

ان کا خیال ہے کہ دماغ کو بیرونی ذرائع سے اضافی بجلی فراہم کرکے اس کی فعالیت بڑھائی جاسکتی ہے، خاص طور پر سیکھنے کی صلاحیت۔

گذشتہ 20 برسوں کے دوران انسانی دماغ کے بارے میں سائنس دانوں کے علم میں نمایاں اضافہ ہوا ہے اور اب وہ دماغ کے مختلف حصوں کے افعال اور کارکردگی کے متعلق پہلے سے کہیں بہتر جانتے ہیں۔

دماغ کی فعالیت اور کارکردگی کے سلسلے میں بجلی کا استعمال 1940 کے عشرے سے ہورہا ہے۔ مگر یہ استعمال زیادہ تر ذہنی امراض کے اسپتالوں میں علاج معالجے تک محدود ہے۔ جہاں مریضوں کو برقی جھٹکے دے کر دماغ کی کارکردگی بہتر بنانے کی کوشش کی جاتی ہے۔

آکسفورڈ یونیورسٹی کے ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر دماغ کے قدرتی برقی نظام کی طاقت میں قدرے اضافہ کردیاجائے تو اس کے کام کرنے کی رفتار اور کارکردگی دونوں میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ اپنے تجربات کے دوران انہیں معلوم ہوا کہ دماغ کو بیرونی ذریعے سے جتنی زیادہ بجلی فراہم کی جاتی ہے ،اسی رفتار سے دماغ کی کارکردگی بھی بڑھتی ہے، لیکن صرف ایک خاص حد تک۔

دماغ کی بیٹری
دماغ کی بیٹری

اس سال کے شروع میں پروفیسر جوہنسن برگ کی ٹیم نے 15 رضاکاروں کو ایک مخصوص برقی ٹوپی پہنائی جس کے ذریعے انہیں پیشانی سے کنپٹی تک دس منٹ کے لیے بجلی فراہم کی گئی۔ اور اس کے بعد پیانوسیکھنے اور معمے حل کرنے کے لیے دیے گئے۔ ماہرین کو پتا چلا کہ انہیں سیکھنے میں پہلے کی نسبت کم وقت لگا اور معمے حل کرنے میں پہلے سے کم مشکل پیش آئی۔

ٹیلی گراف سے پروفیسر جوہنس برگ نے اپنے انٹرویو میں کہا ہے کہ بجلی کی دس منٹ کی خوراک سے رضاکاروں کے دماغ کی تیزی تقریباً آدھ گھنٹے تک برقرار رہی۔ ان کاکہنا تھا کہ اگر دماغ کو کچھ مدت کے لیے دس منٹ تک روزانہ باقاعدگی سے بجلی کی خوراک دی جائے تو اس کی کارکردگی اور تیزی کو زیادہ وقت تک برقرار رکھا جاسکتا ہے۔

پروفیسر جوہنسن برگ کا کہناہے کہ فی الحال یہ تجربات سیکھنے سے متعلق دماغ کے حصوں پر کیے گئے۔ لیکن دماغ کے دوسرے حصوں کی کارکردگی اور رفتار کو بھی بیٹری کے ذریعے برقی رو فراہم کرکے بڑھایا جاسکتا ہے۔

سائنس دانوں کو توقع ہے کہ الیکٹرانک ٹوپی فالج کے مریضوں کے لیے بھی فائدہ مند ثابت ہوگی اور فالج سے متاثرہ بینائی واپس لانے، اعضاء کی حرکات بحال کرنے، اور زبان اور توجہ کے ارتکاز کی خرابیوں کو دور کرنے میں مدد مل سکے گی۔

دماغ کی بیٹری
دماغ کی بیٹری

الیکٹرانک ٹوپی ان افراد کے لیے بھی فائدہ مند ہے جن کا دماغ ہر وقت بے مقصد تانے بانے میں الججھا رہتا ہے، یا جو ایک لمحے کو نچلے نہیں بیٹھ سکتے۔ کیونکہ سائنس دانوں کا کہناہے کہ الیکٹرانک ٹوپی میں برقی رو کی سمت الٹ دینے سے دماغ کے اس حصے کی کارکردگی سست پڑجاتی ہے۔

اور الیکٹرانک ٹوپی سے متعلق آخری خبر، جو شاید آپ کو اچھی نہ لگے، یہ ہے کہ وہ ابھی تجرباتی مراحل سے گذررہی ہے اور اسے مارکیٹ میں آنے میں کئی سال لگ سکتے ہیں۔

  • 16x9 Image

    جمیل اختر

    جمیل اختر وائس آف امریکہ سے گزشتہ دو دہائیوں سے وابستہ ہیں۔ وہ وی او اے اردو ویب پر شائع ہونے والی تحریروں کے مدیر بھی ہیں۔ وہ سائینس، طب، امریکہ میں زندگی کے سماجی اور معاشرتی پہلووں اور عمومی دلچسپی کے موضوعات پر دلچسپ اور عام فہم مضامین تحریر کرتے ہیں۔

XS
SM
MD
LG