رسائی کے لنکس

داعش کا قلع قمع کرنے میں وقت درکار: امریکی فوجی کمانڈر


فائل
فائل

میک فارلینڈ نے کہا کہ ’’یقینی طور پر جو بھی ہمارے بس میں ہے، وہ کارروائی کر گزریں گے، جس کے لیے سر زمین پر موجود مقامی افواج کا سہارا لیا جائے گا۔ دشمن کو شکست دینے کا یہی بہترین طریقہ ہے‘‘

امریکی قیادت میں عراق اور شام میں داعش کے دہشت گرد گروہ کا قلع قمع کرنے کے سلسلے میں اضافی امریکی فوج کی ضرورت پڑے گی، لیکن سرزمین پر تعینات اعلیٰ کمانڈر اِس بات کے خواہاں ہیں کہ جہاں تک ممکن ہو اِن کی تعیناتی خطے کی مقامی افواج کے ساتھ ہونی چاہیئے۔

لیفٹیننٹ جنرل ژاں مارک فارلینڈ نے پیر کے روز پینٹاگان کے اخباری نمائندوں کو بتایا کہ ’’ایسے میں جب ہم عراق اور شام میں کارروائی کو وسعت دے رہے ہیں، اس بات کا قوی امکان ہے کہ اُنھیں اضافی استعداد اور صلاحیت کی فراہمی کے لیے اضافی افواج کی ضرورت پیش آئے گی‘‘۔

بغداد سے بریفنگ دیتے ہوئے، ’آپریشن انہیرنٹ رزالو‘ کے کمبائنڈ جوائنٹ ٹاسک فورس نے وضاحت نہیں کی، جب اُن سے پوچھا گیا آیا کس طرح کی اضافی صلاحیتیں یا افواج کی ضرورت ہوگی۔ اُنھوں نے بتایا کہ امریکی یا اتحادی افواج کو از سر زمین تعیناتی اُن کی اولین ترجیح میں شامل نہیں۔

میک فارلینڈ نے کہا کہ ’’یقینی طور پر جو بھی ہمارے بس میں ہے، وہ کارروائی کر گزریں گے، جس کے لیے سر زمین پر موجود مقامی افواج کا سہارا لیا جائے گا۔ دشمن کو شکست دینے کا یہی بہترین طریقہ ہے‘‘۔
اگست 2014ء سے جب داعش کے خلاف بمباری شروع ہوئی، امریکی قیادت والی اتحادی افواج نے عراق و شام میں اب تک 10000سے زائد اہداف کو نشانہ بنایا ہے۔

امریکی اہل کاروں نے کہا ہے کہ فضائی کارروائی کے نتیجے میں داعش کے لڑاکوں کی پیش قدمی روک دی گئی ہے، جو کسی مرحلے پر بغداد پر حملہ کرنے والے تھے۔ لیکن، اب اندازاً 40 فی صد علاقے سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں، جس پر وہ عراق میں قابض تھے۔

ساتھ ہی امریکی اور اتحادی افواج نے دولت اسلامیہ کے خلاف لڑنے کے لیے تقریباً 20000 عراقیوں کو تربیت فراہم کی ہے، جس میں سپاہی، پولیس اہل کار اور سنی قبائل شامل ہیں۔
اس کے علاوہ، اس کارروائی میں چند عراقی بریگیڈ بھی شامل تھے، جنھیں گذشتہ برس رمادی میں شریک کیا گیا تھا، جو صوبہٴ انبار کا دارلحکومت ہے۔

تاہم، مقامی بَری افواج کو تقویت دینے کی کوششوں میں پیچیدگیاں درپیش آئی ہیں۔

رمادی کو واگزار کرانے کے باوجود، ’آپریشن انہیرنٹ رزالو‘ سے وابستہ اہل کاروں کے اندازے کے مطابق، اُنھیں آٹھ سے 10 عراقی بریگیڈ از سر نو تشکیل دینے ہوں گے، جن میں سے ہر ایک میں 2000سے 3000فوجی شامل ہوں گے، تاکہ داعش سے اہم حکمت عملی والے شمالی شہر، موصل کا کنٹرول خالی کرایا جا سکے۔ اور یہ کہ دو بریگیڈ جنھوں نے رمادی کی بازیابی میں کردار ادا کیا اُنھیں مزید تربیت درکار ہوگی، اِس سے پہلے کہ اُنھیں مزید کارروائیوں کے لیے تیار کیا جائے۔

امریکہ کے لیے شام کی زمین پر پارٹنر تلاش کرنا بہت ہی مشکل کام رہا ہے۔

باوجود اس بات کے کہ شام میں تربیت اور اسلحے کی فراہمی کی مد میں 50 کروڑ ڈالر کی رقم مختص کی گئی تھی، لیکن شام کے 5400 متعدل لڑاکوں کی ابتدائی فورس کو تیار کرنے کے ہدف پورا نہ کرنے کے نتیجے میں، منصوبے کو ترک کیا گیا۔

ایسے لڑاکا جنھوں نے اِس امریکی پروگرام کے تحت گرجوئیشن کی وہ کوئی کارہائے نمایاں انجام دینے میں ناکام رہے، جب کہ کچھ دستے شام میں دوبارہ داخل ہونے کے بعد تحلیل ہو گئے۔

ایسے میں، امریکہ نے مختلف شامی گروپوں کے ساتھ پارٹنرشپ کرلی ہے، جو طریقہٴ کار کسی حد تک کارگر ثابت ہوا ہے، خاص طور پر شامی کُردوں کے معاملے میں؛ جب کہ چھاپے مارنے، داعش کے سرغنوں کو پکڑنے اور انٹیلی جنس اکٹھی کرنے کے کام میں امریکی خصوصی افواج پر ہی انحصار کرنا پڑتا ہے۔

XS
SM
MD
LG