رسائی کے لنکس

سزائے موت کی بحالی سے پاکستان کی ’ساکھ متاثر ہو سکتی ہے‘


یورپی پارلیمان کی ذیلی کمیٹی کے وفد کا کہنا تھا کہ دہشت گردوں کو سزائے موت دینے سے ان عناصر کے لیے مزید حمایتی تلاش کرنے کا کام آسان ہو جاتا ہے۔

یورپی پارلیمان کی ذیلی کمیٹی برائے انسانی حقوق نے متبنہ کیا ہے کہ سزائے موت پر عمل درآمد کا سلسلہ دوبارہ شروع ہونے سے پاکستان کی ساکھ کو ’’بڑا دھچکا‘‘ لگے گا۔

پاکستان میں گزشتہ پانچ برسوں کے دوران سزائے موت پر عمل درآمد سے متعلق غیر سرکاری پابندی عائد رہی لیکن حالیہ قومی و صدارتی انتخابات کے تناظر میں رونما ہونے والی سیاسی تبدیلی کے بعد اس عارضی تعطل کا مستقبل تاحال غیر واضح ہے۔

پاکستان کا دورہ کرنے والے یورپی پارلیمان کی ذیلی کمیٹی کے وفد کی سربراہ اینا گومیس نے منگل کی شب اسلام آباد میں نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ وہ جانتی ہیں کہ پاکستان میں سزائے موت کا معاملہ دہشت گردی سے متعلق صورتِ حال کے تناظر میں متنازع حیثیت اختیار کر چکا ہے۔

اُن کا کہنا تھا کہ پاکستانی حکام کے مطابق سزائے موت پر عمل درآمد سے متعلق عارضی پابندی کی مدت ختم ہو چکی ہے اور 11 مئی کے انتخابات کے بعد اقتدار سنبھالنے والی حکومت اس سلسلے میں فیصلے کے لیے مختلف پہلوؤں کا جائزہ لے رہی ہے۔

’’ہم نے یہ موقف واضح کیا کہ ہمارے خیال میں (سزائے موت پر پابندی میں توسیع نا کرنے کا فیصلہ) پاکستان کی ساکھ کے لیے بڑا دھچکا ہو گا اور میں سمجھتی ہوں ہمارے ساتھ بات چیت میں شریک (پاکستانی) حکام اس امر سے بخوبی آگاہ تھے۔‘‘

وفد کی سربراہ گومیس کا کہنا تھا کہ یورپی یونین کے ممبر ممالک نہیں سمجھتے کہ سزائے موت کے اطلاق سے جرائم کی حوصلہ شکنی ہو سکتی ہے، بلکہ اُن کے خیال میں دہشت گردی میں ملوث مجرمان کو یہ سزا دینے سے دہشت گرد عناصر کے لیے مزید افراد کو اپنے ساتھ شامل کرنے کا کام آسان ہو جاتا ہے۔

یورپی پارلیمان کی ذیلی کمیٹی کے وفد نے منگل کو پاکستانی حکام سے ملاقات کی۔
یورپی پارلیمان کی ذیلی کمیٹی کے وفد نے منگل کو پاکستانی حکام سے ملاقات کی۔

’’ایک شخص کو پھانسی چڑھا کر آپ پانچ یا 10 افراد اس کا بدلہ لینے کے لیے تیار کر لیتے ہیں۔‘‘

یورپی یونین کے حکام کا کہنا ہے کہ سزائے موت کے قانون سے متعلق اقدام اور پاکستان کے لیے مجوزہ تجارتی مراعات سے متعلق یورپی پارلیمان کے مستقبل قریب میں فیصلے کا آپس میں کوئی براہ راست تعلق نہیں۔

مسلم لیگ (ن) کی حکومت کا موقف ہے کہ سزائے موت پر پابندی اُٹھانے یا اس میں توسیع کا حتمی فیصلہ وزیرِ اعظم نواز شریف اور صدر آصف علی زرداری کے مابین مشاورت کے بعد کیا جائے گا، اور کسی بھی فیصلے تک سزائے موت پر عمل درآمد موخر کر دیا گیا ہے۔

وفاقی وزیرِ اطلاعات پرویز رشید نے اپنے حالیہ بیان میں کہا تھا کہ گزشتہ حکومت کے دور میں وزارتِ داخلہ نے سزائے موت پانے والے افراد کے کیس ایوانِ صدر بھیجنا بند کر دیے تھے، لیکن مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے یہ سلسلہ بحال کر دیا۔

سزائے موت پر عمل درآمد موخر کرنے پر موجودہ حکومت کو بعض حلقوں کی جانب سے تنقید کا سامنا بھی کرنا پڑا کیوں کہ یہ اقدام ایسے وقت منظرِ عام پر آیا جب کالعدم تنظیم تحریک طالبان پاکستان میں شامل ایک گروہ نے دھمکی دے رکھی تھی کہ سزائد موت پر عمل درآمد کو مسلم لیگ (ن) کی طرف سے اعلانِ جنگ تصور کیا جائے گا۔

تاہم وزیرِ اطلاعات نے اس تنقید کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ حکومت سزاؤں پر عمل درآمد موخر کرنے کا فیصلہ دھمکی موصول ہونے سے پہلے ہی کر چکی تھی۔
XS
SM
MD
LG