رسائی کے لنکس

اردگان کا دورہٴ ایران، باہمی تجارت کے سمجھوتوں پر دستخط


مسٹر اردگان نے، جنھوں نے بدھ ہی کے روز ایرانی صدر حسن روحانی اور رہبرِ اعلیٰ آیت اللہ علی خامنئی سے ملاقات کی، کہا کہ اُنھوں نے دورے سے اچھی امید وابستہ کی ہوئی ہیں

ترکی کے وزیر اعظم نے تہران کا دورہ کیا ہے، جِس کا مقصد ایران کے ساتھ تعلقات بہتر بنانا اور کچھ معاشی سمجھوتے طےکرنا تھا۔

وزیر اعظم رجب طیب اردگان منگل کی رات گئے ایران پہنچے، جہاں بدھ کے روز ایران کے اول نائب صدر، عشقِ جہانگیری نے اُن کا خیر مقدم کیا۔

عشقِ جہانگیری کے الفاظ میں، ’ہم نے دونوں ممالک کے مابین باہمی تعلقات کے فروغ کا ٹھوس فیصلہ کیا ہے۔ قدرتی گیس کی برآمد سے متعلق ایک بہتر معاہدہ طے کیا گیا ہے۔ ہمیں امید ہے کہ اس پر جلد عمل درآمد ہوگا۔ ہمارے خیال میں، باہمی تعلقات کے حوالے سے ترکی کے وزیر اعظم کا دورہ ایک سنگِ بنیاد کا درجہ رکھتا ہے، جو دونوں ممالک کے درمیان ناطوں کے فروغ میں معاون ثابت ہوگا۔

بعدازاں، مسٹر اردگان نے، جنھوں نے بدھ ہی کے روز ایرانی صدر حسن روحانی اور رہبرِ اعلیٰ آیت اللہ علی خامنئی سے ملاقات کی، کہا کہ اُنھوں نے دورے سے اچھی امید وابستہ کی ہوئی ہیں۔

ترک وزیر اعظم کے بقول، ’آج ہم نے زیادہ تر باہمی امور پر تبادلہٴخیال کیا۔ ترجیحی کاروباری سمجھوتا بے انتہا اہمیت کا حامل تھا۔ اِس پر دستخط کرکے مجھے بہت خوشی ہوئی‘۔

’وائس آف امریکہ‘ کی فارسی سروس نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ یہ مسٹر اردگان کا ایران کا پہلا دورہ نہیں تھا۔ لیکن، یہ ایسے نازک موڑ پر کیا گیا ہے، جب شام کی خانہ جنگی کے معاملے پر دونوں ممالک کا بنیادی مؤقف مختلف ہے۔

ترکی شام کی حزب ِ مخالف کا حامی ہے جب کہ ایران شام کے صدر بشار الاسد کی حمایت کرتا ہے۔

تاہم، اس تضاد کے باوجود، ترکی نے اس بات کی حمایت کرنا شروع کی ہے کہ شام کے مستقبل کے بارے میں مذاکرات کے حوالے سے ایران کو شامل کیا جانا چاہیئے۔


ترکی اور ایران ایسے وقت معاشی طور پر قریب آ رہے ہیں، جب ایران کے متنازع جوہری پروگرام پر شک کی بنا پر جن میں بتایا جاتا ہے کہ ایران نیوکلیئر ہتھیار بنانے کی کوشش کر رہا ہے، بین الاقوامی برادری نے ایران کے خلاف تعزیرات عائد کر رکھی ہیں۔

ایرانی ابلاغ عامہ کے مطابق، دونوں ملکوں کے درمیان سالانہ 20 ارب ڈالر کی تجارت ہوتی ہے۔ ایرانی عہدے داروں کا کہنا ہے کہ اُنھیں امید ہے کہ 2015ء تک یہ اعداد و شمار بڑھ کر 30 ارب ڈالر تک پہنچ جائیں گے۔

مسٹر اردگان کا دورہ ایسے وقت ہو رہا ہے جب اُن کے خلاف انقرہ میں مالی بدعنوانی کے ایک اسکینڈل کا سامنا ہے۔
XS
SM
MD
LG