رسائی کے لنکس

یورپی یونین کا افغان خواتین کی دستاویزی فلم ریلیز نہ کرنے کا فیصلہ


یورپی یونین کا افغان خواتین کی دستاویزی فلم ریلیز نہ کرنے کا فیصلہ
یورپی یونین کا افغان خواتین کی دستاویزی فلم ریلیز نہ کرنے کا فیصلہ

ہیومین رائٹس واچ کی ہیدربار کے مطابق جو ایک رپورٹ کی تیاری کے سلسلے میں بہت سی عورتوں کو انٹرویو کر رہی ہیں، آج کل کئی سو عورتیں اخلاقی جرائم کی پاداش میں جیل میں ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ یورپی یونین کی دستاویزی فلم میں جو واقعات بیان کیے گئے ہیں وہ بہت عام ہیں۔

یورپی یونین کے اس فیصلے پر تنازعہ کھڑا ہو گیا ہے کہ افغانستان میں جیلوں میں قید عورتوں کے بارے میں اس نے جو دستاویزی فلم بنوائی ہے اسے جاری نہیں کیا جائے گا۔ اس فلم میں اخلاقی جرائم کے مسئلے کا احاطہ کیا گیا ہے اور ان تلخ حقائق کو نمایاں کیا گیا ہے جن کا سامنا افغان عورتوں کو کرنا پڑتا ہے۔

یورپی یونین کی ایما پر بنائی جانی والی اس دستاویزی فلم میں دو عورتوں کی درد ناک کہانیاں بیان کی گئی ہیں جو اخلاقی جرائم کی بنا پر افغانستان کی جیلوں میں بند ہیں۔

اطلاعات کے مطابق ان میں سے ایک کی آبروریزی کی گئی تھی اور دوسری عورت گھر سے اس لیے فرار ہو گئی تھی کہ اس کا شوہر اسے مارتا پیٹتا تھا۔

لیکن یورپی یونین نے یہ ڈاکومینٹری فلم نمائش کے لیے جاری نہیں کی ہے۔ ایسو سی ایٹڈ پریس نیوز ایجنسی نے ایک ای میل کا حوالہ دیا ہے جو یورپی یونین کے ایک عہدے دار نے بھیجا ہے جس میں نہ صرف ان عورتوں کی سلامتی کے بارے میں تشویش کا اظہار کیا گیا ہے بلکہ یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس فلم کی نمائش سے یورپ کے ساتھ افغانستان کے نظامِ انصاف کے اداروں کے تعلقات کشیدہ ہو سکتے ہیں۔

یورپ کی خارجہ پالیسی کی چیف کیتھرین آشٹن کے ترجمان مائیکل مان نے اس خیال کو رد کر دیا کہ یورپی یونین کے فیصلے میں سیاست کا کوئی رول تھا۔ انھوں نے کہا کہ ہمیں صرف یہ فکر ہے اس فلم میں جن عورتوں کی کہانی بیان کی گئی ہے انھیں کوئی نقصان نہ پہنچے۔ ’’اس قسم کا کوئی خیال کہ ہم کسی طرح یہ کوشش کر رہے ہیں کہ عورتوں کے حالِ زار کی تشہیر نہ ہو، بالکل احمقانہ ہے۔ بلکہ ہم نے یہ فلم بنوائی ہی اس مقصد سے تھی کہ ہم چاہتے تھے کہ دنیا کو پتہ چلے کہ ان عورتوں پر کیا گزر رہی ہے۔‘‘

ہیومین رائٹس واچ کی ہیدربار کے مطابق جو ایک رپورٹ کی تیاری کے سلسلے میں بہت سی عورتوں کو انٹرویو کر رہی ہیں، آج کل کئی سو عورتیں اخلاقی جرائم کی پاداش میں جیل میں ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ یورپی یونین کی دستاویزی فلم میں جو واقعات بیان کیے گئے ہیں وہ بہت عام ہیں۔

’’اخلاقی جرائم کی پاداش میں جو عورتیں جیل میں ہیں جب آپ ان سے بات کرتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ ان میں سے بعض پر گھر سے بھاگ جانے کا الزام ہے جو افغانستان کے قانون کے مطابق بھی جرم نہیں ہے، اور کچھ عورتوں پر زنا کا الزام لگایا جاتا ہے یعنی ایسے دو افراد کے درمیان جنسی تعلق جو میاں بیوی نہیں ہیں۔‘‘

بار کہتی ہیں کہ اگرچہ حال ہی میں عورتوں کے خلاف تشدد اور آبرو ریزی کو خلافِ قانون قرار دیا گیا ہے لیکن اخلاقی جرائم کے سلسلے میں قید ہونے والی عورتوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔ جیل سے رہا ہونے کے بعد ان عورتوں پر جو گزرتی ہے، وہ بھی کچھ کم پریشان کن بات نہیں ہے۔

’’ان عورتوں کی خاصی بڑی تعداد محسوس کرتی ہے کہ انھیں پھر انہی حالات میں دھکیل دیا جائے گا جن سے بچنے کے لیے وہ فرار ہوئی تھیں۔ بعض عورتیں کہتی ہیں کہ واپسی پر ان کے گھرانے کے لوگ انہیں مار ڈالیں گے کیوں کہ انھوں نے جیل جا کر خاندان کا نام بدنام کیا ہے۔‘‘

اگلے مہینے جب جرمنی میں افغانستان کے مستقبل کے بارے میں کانفرنس ہو گی تو یہ ملک پھر دنیا کی توجہ کا مرکز بن جائے گا۔ بار کہتی ہیں کہ افغان عورتوں کے حقوق کی جدو جہد کرنے والے لوگ اس میٹنگ میں تقریر کرنے کا موقع حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن انھیں اب تک کامیابی حاصل نہیں ہوئی ہے۔

’’لہٰذا میرے خیال میں یہ ایک ایسی کانفرنس ہو گی جس میں عورتوں کو واقعی نظر انداز کر دیا جائے گا، ایک ایسی کانفرنس جسے اس بات سے کوئی مطلب نہیں ہوگا کہ اب بھی سینکڑوں عورتیں جیل میں پڑی ہوئی ہیں، جو بنیادی طور پر گھریلو تشدد کا شکار ہوئی ہیں۔ اس کانفرنس میں ان عورتوں کے مسئلے پر بات کرنے میں کسی کو دلچسپی نہیں ہو گی۔‘‘

لیکن یورپی یونین کے مان کہتےہیں کہ یورپی یونین نے افغانستان کے عدالتی نظام میں اصلاحات اور عورتوں کو زیادہ حقوق دلانے کا عزم کر رکھا ہے۔

’’ہم یورپی یونین میں انسانی حقوق کے زبردست حامی ہیں اور ہم سمجھتے ہیں کہ ان عورتوں کو معاشرے کے دوسرے تمام لوگوں کی طرح برابر کے حقوق ملنے چاہئیں۔ اور ہم سب کو یہی پیغام دینا چاہتے ہیں۔‘‘

مان کہتے ہیں کہ آج کل یورپی یونین اس کوشش میں ہے کہ کسی طرح اس دستاویزی فلم کو نمائش کے لیے پیش کر دیا جائے اور اس کے ساتھ ہی ان عورتوں کی بھی حفاظت کی جائے جنھیں اس فلم میں دکھایا گیا ہے۔

XS
SM
MD
LG