رسائی کے لنکس

جلد غائب ہونے والی ایجادات


بہت سی ایجادات جو چند عشرے پہلے تک بہت مقبول تھیں ، ہماری زندگی سے غائب ہوچکی ہیں۔ اور کئی ایسی چیزیں، جو آپ کو اپنے اردگرد کثرت سے دکھائی دیتی ہیں، ماہرین کا کہنا ہے کہ وہ چند برسوں میں ہماری زندگی سے نکل جائیں گی۔

اس طرح کی خبریں تو اکثر آپ کی نظر سے گذرتی ہوں گی کہ جانوروں اور نباتات کی کئی اقسام دنیا سے مٹ گئی ہیں یا ان کے دنیا سے غائب ہوجانے کا خطرہ بڑھ گیا ہے۔ اور اس کی وجہ کرہ ارض کی آب وہوا میں رونما ہونے والی وہ تبدیلیاں ہیں، جن کا سبب حضرت انسان خود ہے۔ مگر یہ خطرہ صرف پودوں اور جانوروں تک ہی محدود نہیں ہے،انسان اپنی ایجادات پر بھی مسلسل ہاتھ صاف کررہاہے۔ بہت سی ایجادات جو چند عشرے پہلے تک بہت مقبول تھیں ، ہماری زندگی سے غائب ہوچکی ہیں۔ اور کئی ایسی چیزیں، جو آپ کو اپنے اردگرد کثرت سے دکھائی دیتی ہیں، ماہرین کا کہنا ہے کہ وہ چند برسوں میں ہماری زندگی سے نکل جائیں گی۔

چند مہینے پہلے یورپ میں لوگوں نے بڑے پیمانے پر پرانے انداز کے بجلی کے قمقوں کی خریداری کی۔ جلانے کے لیے نہیں بلکہ محفوظ رکھنے کے لیے تاکہ وہ اپنے بچوں کو یہ دکھاسکیں کہ ان کے زمانے میں اس طرح کے بلب جلائے جاتے تھے۔ اس خریداری کی وجہ یہ تھی کہ یورپ کے اکثر ملکوں میں پرانے انداز کے برقی قمقوں کی فروخت قانوناً بند کردی گئی ہے اور اب وہاں صرف انرجی سیور بلب استعمال کیے جارہے ہیں۔

اس وقت ہم آج کے دور کی چند ایسی ہی مقبول ایجادات کا ذکرکررہے ہیں، جن کے بارے میں ماہرین کا کہنا ہے کہ ان کی رخصتی کا وقت آچکاہے۔ آپ چاہیں تو اسے ابھی سے اپنی یادوں کے لیے محفوظ کرسکتے ہیں۔

فیکس مشین:

زیادہ دور پرے کی بات نہیں ہے کہ فیکس مشین کا بڑا والہانہ انداز میں استقبال کیا گیا تھا۔ غالباً دو ڈھائی عشرےپہلے کی بات ہے کہ کئی کاروباری ادارے اپنے اشتہاروں میں بڑے فخر سے یہ ذکر بھی کرتے تھے کہ ان کے ہاں فیکس مشن نصب ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ای میل، سمارٹ فونز اور ٹچ سکرین ٹیکنالوجی نے فیکس مشین کی ضرورت تقریباً ختم کردی ہے۔ مہنگے داموں فروخت ہونے والی فیکس مشینوں کو اب کوئی کوڑیوں کے مول اٹھانے کے لیے بھی تیار نہیں ہے۔ فیکس مشین تیار کرنے والی کمپنیوں نے ترقی یافتہ ممالک کی مارکیٹوں سے اب اپنے سٹاک اٹھا کر ترقی پذیر ممالک بھیجنے شروع کردیے ہیں۔ تاکہ ٹھکانے لگانے سے پہلے وہ جتنی بک جائیں غنیمت ہے۔

ٹیلی فون:

پندرہ بیس سال پہلے تک پاکستان میں ٹیلی فون کا کنکشن لگوانا جوئے شیر لانے سے کم نہیں تھا۔ بڑی بڑی سفارشوں کرانے کے بعد بھی کئی برس تک فون کی لائن کا انتظار کرنا پڑتا تھا۔ اکثر ترقی یافتہ ممالک کو بھی اسی طرح کے ملتے جلتے حالات کا سامنا تھا۔ مگر موبائل فون اور آن لائن آڈیو اور ویڈیو چیٹنگ کی سہولت نے لینڈ لائن فون کو قصہ ماضی بنا دیا ہے۔ ایک زمانہ تھاکہ فون لگوانے کے لیے سوسو پاپڑ بیلے جاتے تھے اور ایک یہ دور ہے کہ لوگ دھڑا دھڑ اپنے لینڈ لائن فون کنکشن کٹوا رہے ہیں۔ صرف امریکہ میں حالیہ چند برسوں میں ایک چوتھائی فون کٹوائے جاچکے ہیں اور یہاں 25 سے 29 سال کی عمروں کے 50 فی صد سے زیادہ افراد صرف موبائل فون استعمال کررہے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ موبائل فون کم خرچ ہونے کےساتھ ساتھ ہر جگہ آپ کو دنیا سے جوڑے رکھتا ہے۔ تجزیہ کاروں کا کہناہے کہ لینڈ لائن فون کا زوال شروع ہوچکاہے کہ اس کی رخصتی اب زیادہ دور کی بات نہیں ہے۔

ڈی وی ڈیز:

چند عشرے قبل ڈی وی ڈی کا بڑا شہرہ تھا ، مگر اس کی شہرت کا سورج بہت جلد ڈھل گیا ہے۔ اب امریکہ اور یورپی مارکیٹوں سے ڈی وی ڈی نکلتی جارہی ہے اور اس کی جگہ لے رہی ہے بلیو رے ڈسک۔ جن پر بہت اچھی کوالٹی کی ویڈیوز ریکار ڈ کی جاسکتی ہیں۔ چونکہ بلیورے ڈسک ، عام ڈی وی ڈی پلئیر پر نہیں چل سکتی ۔ اس لیے مارکیٹ میں ڈی وی ڈی پلیئر اور ریکارڈر کی فروخت کم ہوتی جارہی ہے۔ماہرین کا کہناہے کہ آئندہ چند برسوں میں ڈی وی ڈیز مارکیٹ سے مکمل طورپر غائب ہوجائیں گی۔

فلم پروجیکٹر:

پاکستان میں تو فلمی صنعت ایک عرصے سے روبہ زوال ہے اور سینما ہالوں کو گرا کر ان کی جگہ شاپنگ پلازے اور شادی ہالوں کی تعمیر کا سلسلہ جاری ہے، لیکن ترقی یافتہ ممالک میں فلمی صنعت بدستور ترقی کررہی ہے اوربڑی بڑی ٹیلی ویژن سکرینوں کی آمد کے باوجود لوگوں کی اکثریت اب بھی فلم دیکھنے کے لیے سینما ہالوں کا رخ کرتی ہے۔ مگر امریکہ میں سینما ہالوں سے پرانے انداز کے فلم پروجیکٹرز غائب ہوتے جارہے ہیں اور ان کی جگہ لے رہے ہیں ڈیجیٹل فلم پروجیکٹر۔ 2005ء میں امریکہ بھر میں صرف ایک سو سینما ہالوں میں ڈیجیٹل فلم پروجیکٹر نصب تھے اور اب 2010ء میں یہ تعداد 16ہزار سے بڑھ چکی ہے، جن میں سے پانچ ہزار پروجیکٹر ایسے ہیں جن میں تھری ڈی فلمیں دکھانے کی سہولت بھی موجود ہے۔ ماہرین کا اندازہ ہے کہ چندبرسوں میں پرانے فلم پروجیکٹر یکسر غائب ہوجائیں گے اور سلولائیڈ کے بڑے بڑے فلم رول صرف عجائب گھروں میں ہی دیکھے جاسکیں گے۔

کمپیوٹر ماؤس:

کمپیوٹر کے استعمال کو آسان بنانے میں ماؤس کا بڑا ہاتھ ہے۔ شاید ہی کوئی کمپیوٹر ایسا ہو، جسے ماؤس کے بغیر استعمال کیا جاتا ہے۔ اکثر لوگ تو اپنے لیپ ٹاپ کے ساتھ بھی ماؤس استعمال کرتے ہیں ، اگرچہ ان میں ٹچ پیڈ موجود ہوتا ہے۔ تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ کمپیوٹر ماؤس کو الواع کہنے کا وقت قریب آرہاہے اور اس کی وجہ ہے تیزی سے مقبول ہوتا ہوا میجک ٹریک پیڈ۔ جس کے لیے تار کی ضرورت نہیں ہے۔ وہ بلیو ٹوتھ فریکونسی پر کام کرتا ہے اور اس کی کارکردگی نہ صرف روایتی ماؤس سے بہتر ہے بلکہ اس کا استعمال بھی زیادہ آسان ہے۔

موبائل فون چارجرز:

موبائل فون رکھنے والوں کے لیے ایک بڑا مسئلہ اس کی چارجنگ کا ہوتا ہے۔ ہر فون کمپنی اپنا مختلف انداز کا چارجر بناتی ہے۔ اکثر اوقات ایک گھر میں کئی کئی چارجر لگے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ اور اگر کہیں جاتے ہوئے آپ اپنا چارجر بھول گئے ہیں تو آپ کو دقت کا سامنا کرنا پڑسکتاہے۔ اس کا نیا حل ہے وائرلس چارجر۔ تار کی جھجھٹ اور نہ کچھ اور۔ آپ کہیں بھی اپنا موبائل فون، اور جی پی ایس چارج کرسکتے ہیں۔ اس چھوٹے سے آلے کو آپ اپنے گھر میں، یا کسی بھی جگہ پلک کے ساتھ نصب کردیں۔ وہ اس چاردیواری میں موجود تمام موبائل فونز ، جی پی ایس اور اسی طرح کے دوسرے آلات کو خود بخود چارج کردے گا۔ اور جب بیٹری پوری طرح چارج ہوجائے گی تو وہ اپنا کام بند کردے گا، جس سےبجلی کی بچت بھی ہوسکے گی۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ آنے والے چند برسوں میں وائرلس چارجر ، روایتی چارجرز کی جگہ لے لیں گے۔

پلازما ٹیلی ویژن:

اکثر ترقی پذیر ملکوں میں اب بھی ٹیوب سکرین کے ٹیلی ویژن کام کررہے ہیں جب کہ ترقی پذیر ملکوں میں فلیٹ سکرین لازما ٹیکنالوجی اپنے جلوے دکھا کر واپسی کے راستے پر ہے۔ ٹیلی ویژن بنانے والی اکثر کمپنیوں نے پلازما ٹیکنالوجی کا استعمال ترک کرکے اس کی بجائے ایل سی ڈی ٹیلی ویژن بنانے شروع کردیے ہیں، جو نہ صرف یہ کہ مقابلتاً سستی ٹیکنالوجی ہے بلکہ اس می ں بجلی کا استعمال بھی کم ہوتا ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ایل سی ڈی فلیٹ سکرین ، عام سکرین سے زیادہ دیر پا بھی ہے۔

کریڈٹ کارڈ:

کچھ لوگ ترقی یافتہ ممالک کی تیز رفتار ترقی کا کریڈٹ ، کریڈٹ کارڈوں کو بھی دیتے ہیں۔ جس نے خرید و فروخت کو انتہائی آسان بنا دیا ہے۔ ترقی پذیر ملکوں میں بھی کریڈٹ کارڈ تیزی سے مقبول ہورہے ہیں ، لیکن ماہرین کا کہناہے کہ کریڈٹ کارڈ اپنی عمر عزیز کے آخری دور میں داخل ہوچکے ہیں، اور آئندہ چند برسوں میں وہ ہماری زندگی سے خارج ہوجائیں گے۔ کریڈٹ کارڈ کی جگہ لینے کے لیے جوچیز تیزی سے آگے بڑھ رہی ہے، وہ ہے موبائل فون۔ سمارٹ فونز میں ان دنوں ریڈ یو فریکونسی کے ذریعے شناخت کی سہولت فراہم کی جارہی ہے، جو مالیاتی لین دین کے کام آتی ہے ۔ اس ٹیکنالوجی کی بدولت اب خریدو فروخت کے موقع پر ان سے کریڈٹ کارڈ کا کام لیا جارہاہے۔ ماہرین کا کہناہے کہ جب موبائل فون کے ذریعے آپ لین دین کرسکتے ہوں تو پھر ایک اضافی کارڈ اپنی جیب میں رکھنے کی کیا ضرورت ہے۔

آئی پاڈ:

آئی پاڈ کی ایجاد نے اپیل کمپیوٹر کمپنی کو نہ صرف ڈوبنے سے بچایا بلکہ الیکٹرانک کی دنیا کی صف اول کی کمپنیوں میں لاکھڑا کیا ہے۔ آئی پاڈ ، دیجیٹل میوزک پلیئر ہے۔ جو بالخصوص نوجوانوں میں تیزی سے مقبول ہوا۔ ہر چند کہ مارکیٹ میں بہت سے ڈیجیٹل میوزک پلیئر موجود ہیں ، مگر مقبولیت کے اعتبار سے آئی پاڈ اب بھی سب سے آگے ہے۔ تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ اب آئی پاڈ اور ڈیجیٹل میوزک پلیئر اپنی روانگی کے مرحلے میں داخل ہوچکے ہیں اور چندبرسوں کے بعد وہ بمشکل ہی کہیں دکھائی دیں گے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جو چیز ڈیجیٹل میوزک پلیئر کی جگہ لے رہی ہے ، وہ ہے موبائل فون۔ سمارٹ موبائل فونز میں میوزک ذخیرہ کرنے کی تقریباً اتنی ہی گنجائش موجود ہے جتنی کہ ڈیجیٹل میوزک پلیئرز میں ہوتی ہے۔ مگر ان میں میوزک کے علاوہ اور بھی بہت سے اضافی فوائد موجود ہیں۔ اور حیرت کا پہلو یہ ہے کہ آئی پاڈ کی جگہ لینے کے لیے جو چیز تیزی سے آگے بڑھ رہی ہے ، وہ اپیل کمپنی کا ہی آئی فون ہے، جو مقبولیت کے نئے ریکارڈ قائم کررہاہے۔

  • 16x9 Image

    جمیل اختر

    جمیل اختر وائس آف امریکہ سے گزشتہ دو دہائیوں سے وابستہ ہیں۔ وہ وی او اے اردو ویب پر شائع ہونے والی تحریروں کے مدیر بھی ہیں۔ وہ سائینس، طب، امریکہ میں زندگی کے سماجی اور معاشرتی پہلووں اور عمومی دلچسپی کے موضوعات پر دلچسپ اور عام فہم مضامین تحریر کرتے ہیں۔

XS
SM
MD
LG