رسائی کے لنکس

مصر میں تشدد اور غیر یقینی صورت کے امریکی پالیسی پر اثرات


مصر میں تشدد اور غیر یقینی صورت کے امریکی پالیسی پر اثرات
مصر میں تشدد اور غیر یقینی صورت کے امریکی پالیسی پر اثرات

مصر کے فوجی حکمران اب ایک نئی حکومت کی تشکیل پر اور جولائی تک اقتدار ایک سویلین ادارے کو منتقل کرنے پر رضا مند ہو گئے ہیں۔ لیکن لاکھوں مظاہرین فوجی حکومت کا فوری خاتمہ چاہتے ہیں۔ مصر میں افرا تفری اور غیر یقینی کی حالت سے امریکی خارجہ پالیسی اور امریکہ کے ایک اہم اتحادی ملک کو ملنے والی اربوں ڈالر کی امریکی امداد کس طرح متاثر ہوگی۔

قاہرہ کے تحریر اسکوائر میں احتجاجیوں کے بڑے بڑے ہجوم فوجی حکمرانوں سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ وہ اقتدار چھوڑ دیں۔ اور ان ہنگاموں میں جو تشدد ہوا ہے، اس پر امریکی عہدے داروں کو تشویش ہے ۔ وائٹ ہاؤس کے ترجمان جے کارنی کہتے ہیں’’امریکہ کا اب بھی یہی خیال ہے کہ ان المناک واقعات کو انتخابات کی راہ میں حائل نہیں ہونے دینا چاہیئے اور جمہوریت کی طرف سفر جاری رہنا چاہیئے۔‘‘

یورسٹی آف میری لینڈ کے پروفیسر شبلی تلہامی کہتے ہیں کہ مشرقِ وسطیٰ میں امریکہ کی خارجہ پالیسی میں مصر کو کلیدی مقام حاصل ہے ۔’’مصر عرب دنیا کا سب سے زیادہ آبادی والا اور با اثر ملک ہے ۔ وہاں جو کچھ ہوتا ہے اس کے اثرات ، خلیج کے ملکوں سمیت، دوسرے علاقوں میں بھی امریکہ کے مفادات پر پڑیں گے ۔ خلیج کے ملکوں کا رویہ مصر کے واقعات سے متاثر ہو گا ۔ لہٰذا مصر کے واقعات میں امریکہ کے بہت سے مفادات داؤ پر لگے ہوئے ہیں۔‘‘

تلہامی کہتے ہیں کہ مظاہرین اور سیکورٹی فورسز کے درمیان مسلسل جھڑپوں سے امریکہ میں رائے عامہ متاثر ہو سکتی ہے ۔’’اگر تعلقات میں کشیدگی برقرار رہتی ہے اور فوج اور پبلک میں ٹکراؤ ہو جاتا ہے تو آپ دیکھیں گے کہ امریکی کانگریس اور ہمارے ملک کی رائے عامہ کے سیاسی ماحول میں تبدیلی آ جائے گی۔‘‘

صدر براک اوباما نے مصر کی فوجی کونسل پر زور دیا ہے کہ ملک میں ہنگامی حالات ختم کر دیے جائیں اور سویلین افراد پر فوجی عدالتوں میں مقدمے نہ چلائے جائیں۔ یو ایس انسٹی ٹیوٹ آف پیس کے اسٹیون ہیڈمان کہتے ہیں کہ تشدد سے مصر کو ملنے والی اربوں ڈالر کی امریکی امداد خطرے میں پڑ سکتی ہے ۔

’’ہمیں سپریم کونسل کو مسلسل یاد دلاتے رہنا چاہیئے کہ ان کا رول عارضی ہے ، وہ نگران حکومت کا رول ادا کر رہے ہیں، اور انہیں کوئی ایسی کارروائی نہیں کرنی چاہیئے جس سے مصر میں ایسے نظامِ حکومت کا قیام خطرے میں پڑ جائے جو سب کی شمولیت، رواداری اور جمہوری سیاسی نظام پر مبنی ہو۔‘‘

لیکن پوٹومک انسٹی ٹیوٹ کے سینیئر فیلو، توفیق حامد کہتے ہیں کہ ملٹری کونسل پر بہت زیادہ دباؤ ڈالنے کے نا خوشگوار نتائج بر آمد ہو سکتےہیں اور اسرائیل کے ساتھ مصر کے تعلقات کو نقصان پہنچ سکتا ہے ۔’’فوج پر بہت زیادہ دباؤ ڈالنے سے ، بالآخر یہ نتیجہ بر آمد ہو سکتا ہے کہ مصر اسلام پسندوں کے کنٹرول میں چلا جائے۔‘‘

اس سال کے شروع میں احتجاجوں کے نتیجے میں صدر حسنی مبارک کے استعفے کے بعد، یہ تازہ ترین مظاہرے سب سے بڑے تھے ۔

XS
SM
MD
LG