رسائی کے لنکس

دوڑتی گاڑیوں کے درمیان سیلاب زدگان کی عارضی پناہ گاہ


دوڑتی گاڑیوں کے درمیان سیلاب زدگان کی عارضی پناہ گاہ
دوڑتی گاڑیوں کے درمیان سیلاب زدگان کی عارضی پناہ گاہ

سیلاب سے متاثرہ لاکھوں بے گھر افراد کے لیے حکومت اور نجی اداروں کی طرف سے لگ بھگ پانچ ہزارعارضی کیمپ لگائے گئے لیکن تباہی اتنے بڑے پیمانے پر ہوئی ہے کہ حکومت پاکستان ، اقوام متحدہ اوردیگر فلاحی اداروں کے طرف سے تقریباً ایک ماہ گزرنے کے بعد بھی متاثرین کی ایک بڑی تعداد تک مناسب امداد فراہم نہیں کی جاسکی ہے۔ جب کہ ماسوائے اُن کیمپوں کے جو فوج کے زیر نگرانی قائم کیے گئے ہیں نجی اور ضلعی انتظامیہ کی طرف سے لگائے گئے کیمپوں میں سیلاب زدگان بنیادی ہنگامی امداد کی عدم فراہمی پر سراپا احتجاج ہیں۔

چارسدہ اور نوشہرہ کا شمار صوبہ خیبر پختون خواہ کے اُن اضلاع میں ہوتا ہے جو سیلاب سے سب سے زیادہ متاثرہ ہوئے ہیں اور یہاں کے رہائشی اپنے دیہات میں پانی بھر جانے اور گھروں کے منہدم ہوجانے کےبعد جدید ترین موٹروے پر خیمے لگا کر رہنے پر مجبور ہیں ۔ اس خیمہ بستی میں 460 خاندان مقیم ہیں جن میں اکثریت بچوں کی ہے ۔

سیف الاسلام کا تعلق ضلع نوشہرہ کے گاؤں کیمپ کرونا سے ہے ۔ وہ اپنے چار بچوں کے ساتھ اپنے گھر کے سامنے موٹر وے پر ایک خیمے میں رہ رہے ہیں اور اُنھوں نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ سیلاب سے تباہی اتنی اچانک ہوئی کہ کسی کو سنبھلنے کا موقع ہی نہیں ملا ” جب سیلا ب آیا تو میں اپنے گھر میں تھا اور میں سوچ رہا تھا کہ یہاں پانی نہیں آئے گا لیکن رات دو بجے پانی ہمارے گھر میں گھس گیا اور دیوار گر گئی، میں اپنے بچوں کو وہاں سے نکال کر لے گیا۔ ہمارے پانچ چھ کچے کمرے سیلا ب سے گر گئے اور سارا سامان نیچے دب گیا ہے۔ حکومت کو چاہیئے کہ کوئی مشینری دے تاکہ ہم دبا ہوا سامان نکال سکیں۔ وہ سامان ہم کباڑ میں تو بیچ سکتے ہیں، یہ استعمال کے قابل تو نہیں رہا“۔

سیف الاسلام
سیف الاسلام

یہاں آ باد لوگوں کا کہنا ہے کہ بچوں کے لیے سٹرک کے بیچ قائم اس کیمپ میں رہنا کسی خطرے سے کم نہیں لیکن وہ کہیں اور اس لیے نہیں جاتے کہ یہاں اُنھیں امدادی سامان آسانی سے مل جاتا ہے۔ دو خیموں میں اپنے خاندان کے 20 افراد کے ساتھ مقیم ارشاد علی کا کہنا تھا کہ ”موٹر وے پر اس لیے رہتے ہیں کہ یہاں ہمیں سب کچھ ملتا ہے ۔ کھانا، پانی ،راشن اور پیسے بھی ملتے ہیں‘‘۔ اُنھوں نے بتایا کہ اگر موٹر وے نہ ہوتی تو یہاں اُنھیں کھانا تک نہ ملتا۔

محمد وقار کا تعلق ضلع چارسدہ سے ہے اُن کا کہنا ہے کہ وہ یہاں اس لیے رہ رہے ہیں کہ ’’ موٹر وے پر امداد دینے والے آسانی سے پہنچ جاتے ہیں اور اگر وہ کہیں اور رہتے تو پتہ نہیں امداد دینے والے آتے یا نہ آتے‘‘۔

اس خیمہ بستی میں مقیم جان محمد پاکستان نیوی میں ملازم ہیں اُنھوں نے بتایا کہ سیلاب اُن کاسب کچھ بہا کر لے گیا اور وہ اپنے بچوں کو لے کر پشاور میں وزیرکالونی کے علاقے میں سرکاری سکول میں قائم ایک کیمپ میں چلے گئے ۔ لیکن سکول میں گرمیوں کی تعطیلات کے بعد اُنھیں مجبوراً واپس آنا پڑا۔ ” مال مویشی مرگئے ہیں اور مکانوں میں جتنا سامان ہے وہ تباہ ہو گیا ہے۔ جن کے ایک دو کمر ے سیلاب سے بچ گئے ہیں وہ واپس اپنے گھروں میں آ گئے ہیں۔ میر ے گاؤں کے 80 فیصد لوگ مزدوری کرتے ہیں اور اگر حکومت نے امداد نہ دی تو یہ کچھ بھی نہیں کر سکیں گے۔ موٹر وے پر اس لیے رہ رہے ہیں کہ ہمیں جتنی امداد یہاں ملتی ہے کہیں اور نہیں ملتی ۔ تقریباً پانچ سال پہلے میں نے پانچ لاکھ روپے سے اپنا گھر بنایا تھا لیکن اب گھر بنانا بہت مشکل ہے، ہم چاہتے ہیں جلداز جلد حکومت ہمیں پیسے دے تاکہ گھروں کو آباد کر سکیں“۔

اقوام متحدہ اور دیگر امدادی تنظیمیں بار ہا یہ انتباہ کرچکی ہیں کہ متاثرہ علاقوں میں صفائی کے مناسب انتظامات نہ ہونے کی باعث وبائی بیماریاں پھیلنے کا خدشہ ہے۔ موٹروے پر قائم کیمپ کا دورہ کرنے والے ڈاکٹر شفیق نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ” یہاں زیادہ تر لوگ امراض کا شکار ہیں، آشوب چشم ، دست و اسہال کے علاوہ بخار کے بھی مریض ہیں اورمیرے خیال میں یہ لوگ بے چین اور پریشان ہیں کہ یہاں کب تک رہیں گے“۔ ڈاکٹر شفیق کا کہنا تھا کہ ان لوگوں کو مصروف موٹر وے درمیان میں خیمے لگا کر رہنے کی بجائے کسی اور جگہ منتقل ہوجانا چاہیئے تاکہ ان کے بچے کسی بھی طر ح کے ٹریفک حادثے سے محفوظ رہیں ۔

ڈاکٹر شفیق
ڈاکٹر شفیق

اس کیمپ میں خواتین کے کوائف اکٹھے کرنے والی ارشاد بیگم نے بتایا کہ سب سے زیادہ مسائل حاملہ خواتین کے ہیں کیوں کہ اُن کے لیے خاتون ڈاکٹر نہیں ہے۔

ڈاکٹر خالد پاکستان ریڈ کریسنٹ سوسائٹی سے وابستہ ہیں اور اُن کا ادارہ موٹروے پر آباد سینکڑوں خاندانوں کو خشک راشن تقسیم کر رہا ہے۔ ڈاکٹر خالد کے بقول کہ ان لوگوں کا زیادہ گزر اوقات مویشی پالنے اور فصلوں کی کاشت پر تھا، سیلاب سے نہ صرف ان کی فصلیں تباہ ہو گئی ہیں بلکہ مویشی مرجانے سے اب دودھ بیچ کر حاصل ہونے والی آمدن بھی ختم ہو گئی ہے۔


XS
SM
MD
LG