رسائی کے لنکس

غذا کی فراہمی کے لیے کاشتکاری کے بہتر طریقوں پر زور


ایک بڑے تحقیقی ادارے کا کہنا ہے کہ غذا کی فراہمی کو یقینی بنانے کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ زیادہ پیداوار حاصل کرنے کے لیے کاشتکاری کے بہتر طریقے استعمال کیے جائیں، یہ نہیں کہ زیرِ کاشت رقبے میں اضافہ کیا جائے ۔ دنیا میں زراعت پر دباؤ بڑھتا جا رہا ہے کیوں کہ دنیا کی آبادی بڑھ رہی ہے اور جن ملکوں میں اقتصادی ترقی ہو رہی ہے وہاں انواع اقسام کی غذائی اشیاء مانگ بھی بڑھ رہی ہے ۔

فرینک رجسبرمن زرعی تحقیق کے ادارے کنسلٹیٹوو گروپ آن انٹرنیشنل ایگریکلچرل ریسرچ کے سربراہ ہیں۔ اس گروپ کو مختصراً سی جی آئی اے آر کہا جاتا ہے ۔ وہ کہتے ہیں’’کئی عشروں تک زراعت کو نظر انداز کیا جاتا رہا ۔ ہم سستی اور وافر مقدارمیں دستیاب غذائی اشیا کے عادی ہو گئے تھے ۔ 2008، 2010 اور 2011میں جب غذائی اشیاء کی قیمتوں میں زبردست اضافہ ہوا تو لوگوں کی آنکھیں کھلیں۔ لوگوں کو پتہ چلا کہ ہمیں دنیا کی بڑھتی ہوئی آبادی کے لیے کہیں زیادہ اناج پیدا کرنا ہوگا، یعنی 2050 تک غذائی اشیاء کی پیداوار میں 70 فیصد اضافہ کرنا ہوگا۔‘‘

توقع ہے کہ دنیا کی آبادی 2050 تک 9 ارب تک پہنچ جائے گی، یعنی موجودہ سطح کے مقابلے میں 2 ارب زیادہ۔ لیکن اتنے زیادہ لوگوں کا پیٹ بھرنے کے لیے ، کیا ہمیں زمین کے زیادہ بڑے رقبے پر کاشت کرنی چاہیئے ؟

رجسبرمن کہتے ہیں’’در اصل یہ طریقہ صحیح نہیں ہے کیوں کہ فی ہیکٹر ہمیں زمین سے جو فصل ملتی ہے وہ ایک خاص حد تک پہنچنے کے بعد رُک گئی ہے ۔ اس میں اب مزید اضافہ نہیں ہو رہا ہے ۔ اب کاشتکار صرف یہی کر سکتے ہیں کہ زیرِ کاشت رقبے کو بڑھائیں اور وہ یہ کام جس تیزی سے کر رہے ہیں وہ تشویشناک ہے ۔ اتنی تیزی سے تو انھوں نے سبز انقلاب کے زمانے میں بھی یہ کام نہیں کیا تھا ۔ لیکن اگر وہ یہ کرتے رہے تو وہ معمولی درجے کی زمینو ں پر، ان علاقوں میں جو ماحول کے لیے اہم ہیں، کھیتی باڑی شروع کر دیں گے ۔ ا س کے نتائج خاصے تباہکن ہوں گے اور انہیں زیادہ عرصے تک قائم نہیں رکھا جا سکے گا۔‘‘

رجسبرمن کہتےہیں کہ اہم ترین بات یہ ہے کہ تحقیق کی جائے اور ایسے طریقے معلوم کیے جائیں جن سے ہم موجودہ زرعی زمین سے زیادہ پیداوار حاصل کر سکیں۔سی جی آئی اے آر کا سب سے اہم ہدف یہی ہے۔ ’’نجی شعبے میں زراعت میں کافی تحقیق ہو رہی ہے ، لیکن اس سے بنیادی طور پر تجارتی پیمانے پر کاشت کرنے والے بڑے بڑے لوگ ہی فائدہ اٹھا سکتے ہیں ۔ ہم چھوٹے چھوٹے کاشتکاروں کی مدد کر رہے ہیں، یعنی 50 کروڑ ایسے کاشتکار جو دو ہیکٹرز سے کم زمین پر کاشت کرتےہیں، اور ترقی پذیر ملکوں میں غذا کی فراہمی کا سب سے بڑا ذریعہ ہیں۔‘‘

اس ادارے کے بعض اہم ریسرچ پروگراموں میں مکئی، گندم، چاول، آلو اور yams نیز مچھلی اور دوسرے جانوروں پر کام شامل ہے ۔

دوسرا مقصد یہ ہے کہ تازی ترین تحقیق کے نتائج جلد از جلد چھوٹے چھوٹے کاشتکاروں تک پہنچا دیے جائیں، مثلاً ایسی معلومات کہ منڈیوں تک کیسے رسائی حاصل کی جائے، اور فصل کٹنے کے بعد، نقصانات کیسے کم کیےجائیں۔ ایک اور مقصد یہ ہے کہ آب و ہوا کی تبدیلی، غذائیت اور عورتوں سے متعلق مسائل پر توجہ دی جائے کیوں کہ تقریباً تما م ملکوں میں زرعی پیداوار میں عورتوں کا رول زیادہ اہم ہوتا ہے ۔

رجسبرمن کہتے ہیں کہ ہو سکتا ہے کہ ترقی یافتہ ملکوں میں غذائی اشیاء کی قیمتوں میں حالیہ اضافہ صارفین پر شاق نہ گذرے، لیکن غریب ملکوں میں لوگوں پر اس کے تباہ کن اثرات ہوتے ہیں۔’’افریقہ، ایشیا اور لاطینی امریکہ کے اربوں غریب لوگ، اپنی آمدنی کا 80 سے 90 فیصد حصہ غذائی اشیاء کی خریدی پر خرچ کر دیتے ہیں۔ لہٰذا اگر قیمتوں میں 10 یا 20 فیصد اضافہ ہو جائے، تو ان پر اس کا فوری اثر پڑتا ہے ۔ 2010/11 میں جب غذائی اشیاء کی قیمتیں بڑھیں، تو دنیا میں تقریباً چار کروڑ چالیس لاکھ افراد غریبی کے چنگل میں پھنس گئے ۔‘‘

سی جی آئی اے آر پائیدار ترقی کے بارے میں Rio+20 کی کانفرنس کی تیاری کر رہی ہے ۔ یہ کانفرنس جو کرۂ ارض کی پہلی سربراہ کانفرنس کی بیسویں سالگرہ کے موقعے پر ہو رہی ہے، 20 جون سے شروع ہو گی ۔

G8 کے ملکوں کی حالیہ سربراہ کانفرنس میں جو کیمپ ڈیوڈ میں ہوئی، صدر اوباما نے نیو الائینس آن فود اینڈ نیوٹریشن سکیورٹی اعلان کیا ۔ اس میں کہا گیا ہے کہ پرائیویٹ سیکٹر کو زیادہ بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کرنی چاہیئے اور زراعت میں دلچسپی لینی چاہیئے ۔

رجسبرمن کہتے ہیں کہ افریقہ کو غذا کی فراہمی کی ضمانت کے مقصد کو پورا کرنے کے لیے، زراعت میں سرمایہ کاری میں فی سال 21 ارب ڈالر سرمایہ کاری کرنی پڑے گی اور اس رقم کا بیشتر حصہ پرائیویٹ سیکٹر کو فراہم کرنا ہو گا۔

XS
SM
MD
LG