رسائی کے لنکس

برقع پر پابندی پر ملا جلا ردعمل


فرانس کی پارلیمینٹ کے ایوانِ زیریں نے بھاری اکثریت سے ایسی مسلمان عورتوں پر پابندی عائد کردی ہے جو پورے نقاب والا برقع پہن کر گھر سے باہر نکلتی ہیں۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ یہ اقدام سکیورٹی کے لیے ضروری ہے جب کہ بعض دوسرے لوگوں کا کہنا ہے کہ اس سے مسلمانوں کے خلاف مذہب کی بنیاد پر امتیازی سلوک کا اظہار ہوتا ہے ۔

منگل کے روز جب فرانس کی پارلیمنٹ کے ایوان زیریں میں ووٹنگ ہوئی تو 336 ووٹ اس پابندی کے حق میں اور ایک اس کے خلاف آیا۔ حزبِ اختلاف کے 200 سے زیادہ سوشلسٹ اور کمیونسٹ ارکان نے ووٹنگ کا بائیکاٹ کیا۔ بعض ارکان نے پیشگوئی کی کہ عدالت اس قانون کو خلافِ آئین قرار دے دے گی۔

تاہم فرانس کی وزیرِ انصاف میچیل الیوٹ ماری نے مترجم کی وساطت سے بیان دیتے ہوئے کہا کہ اس ووٹ سے سینکڑوں سال پرانی فرانسیسی اقدار کی توثیق ہوئی ہے ۔’’یہ وہ اقدار ہیں جن سے ہماری یاد دہانی ہوتی ہے کہ فرانس کی اصل پہچان اور اس کی حقیقی طاقت وہ اقدار ہیں جو ہمیں متحد کرتی ہیں ۔ یہ وہ انسانی اقدار ہیں جن کی بدولت آج بھی اور ماضی میں بھی، فرانس کی یکجہتی، اس کی انفرادیت اور اس کی عظمت قائم رہی ہے ۔‘‘

فرانس میں برقعے اور نقاب پر برسوں سے بحث ہو رہی ہے ۔ فرانس میں تقریباً 50 لاکھ مسلمان آباد ہیں اور مسلمان عورتوں کی بہت تھوڑی سی تعداد ایسا لباس پہنتی ہے جس سے ان کی آنکھوں کے سوا ، ان کا پورا جسم چھپا رہتا ہے ۔

ابراہیم ہوپر واشنگٹن میں قائم کونسل آن امیریکن اسلامک ریلیشنز کے ترجمان ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ فرانس کی پارلیمنٹ کے ووٹ کی آڑ میں ، صرف ان عورتوں کے خلاف نہیں جو برقع پہنتی ہیں ، بلکہ تمام مسلمانوں کے خلاف امتیازی سلوک کی کوشش کی گئی ہے ۔’’یہ ایک نئے قسم کا قانون ہے جس میں اکثریت کے تعصبات کی بنیاد پر اقلیت کو نشانہ بنایا گیا ہے ۔ میرے مذہبی حقوق اکثریتی ووٹ کے محتاج نہیں ہونے چاہئیں۔‘‘

رینڈ کارپوریشن کے ڈیوڈ آرون نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ایسے نقاب سے جس میں چہرہ پوری طرح ڈھکا ہوتا ہے پبلک مقامات پر جیسے ٹرین اسٹیشنوں یا بس اسٹاپس پر سکیورٹی کا مسئلہ پیدا ہوتا ہے کیوں کہ اس طرح لوگوں کی شناخت نا ممکن ہو جاتی ہے ۔’’میں جانتا ہوں کہ بہت سے لوگ سمجھتے ہیں کہ یہ قانون نسل پرستی اور اسلام دشمنی پر مبنی ہے ۔ لیکن میں سمجھتا ہوں کہ یہ فرانس میں اور دوسرے یورپی ملکوں کے لیے، جہاں شناخت کے کاغذات دیکھنے کا رواج ہے، ایک سنگین مسئلہ بھی ہے ۔ اگر کسی نے برقع اوڑھ رکھا ہے تو پھر ان شناختی کاغذات کو چیک کرنا ممکن نہیں ہوتا۔‘‘

جان ڈلہیوسن ایمنیسٹی انٹرنیشنل سے وابستہ ہیں اور یورپ میں امتیازی سلوک کے ماہر ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ پورے چہرے کو ڈھکنے والے نقاب پر پابندی سے عورتوں کے حقوق پر مزید پابندیاں لگ سکتی ہیں۔’’میرے خیال میں یہ خطرہ موجود ہے کہ وہ عورتیں جنہیں آج کل نقاب ڈالنے پر مجبور کیا جاتا ہے، ان کی حالت میں بہتری نہیں آئے گی۔ امکان یہ ہے کہ و ہ گھر کی چار دیواری میں اور زیادہ قید ہو جائیں گی۔ اس طرح انہیں جو خدمات، اشیاء اور امدادی سہولتیں حاصل ہیں، ان تک رسائی ختم ہو جائے گی۔ ‘‘

ابراہیم ہوپر کہتے ہیں کہ سکیورٹی کی دلیل صحیح نہیں ہے کیوں کہ عام طور سے ایسا ہوتا ہے کہ مسلمان عورتوں کو الگ لے جا کر ا ن کی نقاب اتاری جاتی ہے اور وہ باہر آکر پھر چہرہ ڈھک لیتی ہیں۔ ہوپر کہتے ہیں’’عملے کی خواتین افسر ایسی عورتوں کا چہرہ دیکھ سکتی ہیں۔ اس قسم کی صورت حال سے نمٹنے کے بہت سے طریقے ہیں۔ بہت سی عورتیں ہیں جو چہرہ ڈھکتی ہیں اورہوائی جہاز سے سفر کرتی ہیں۔ہوائی سفر سے زیادہ سکیورٹی اور کہاں ہوتی ہے ۔یہ محض ایک دلیل ہے جو لوگ اپنے مقصد کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔ اس کا اصل مسئلے سے کوئی تعلق نہیں۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ یورپ میں اسلام کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔‘‘

برقع پر پابندی پر ملا جلا ردعمل
برقع پر پابندی پر ملا جلا ردعمل

اگر یہ پابندی قانون بن جاتی ہے تو اس کی خلاف ورزی کرنے والوں کو $190 کا جرمانہ ادا کرنا ہوگا۔ ایسے مرد جو عورتوں کو پوری نقاب پہننے پر مجبور کریں گے ان پر 1,800 ڈالر جرمانہ اور ایک سال جیل کی سزا ہو سکتی ہے ۔ یہ فرانسیسی قانو ن ستمبر میں سینٹ میں جائے گا جہاں توقع ہے کہ یہ منظور ہو جائے گا۔

پیو ریسرچ سنٹر کے نئے پول کے مطابق، 82 فیصد سے زیادہ فرانسیسی اس پابندی کے حق میں ہیں۔جرمنی میں 71 فیصد، برطانیہ میں 62 فیصد، اور اسپین میں 59 فیصد لوگوں نے کہا کہ وہ اپنے ملکوں میں ایسی نقاب پر پابندی کے حق میں ہیں جس سے پورا چہرہ ڈھک جاتا ہو۔ اس کے بر خلاف، امریکیوں کی اکثریت نے کہا کہ وہ اس قسم کے قانون کی حمایت نہیں کریں گے۔

XS
SM
MD
LG