رسائی کے لنکس

فرانس میں تارکین وطن کے خلاف اقدامات


فرانس کے صدرنکولاسارکوزی نے کہا ہے کہ نہ صرف غیر قانونی تارکین وطن کے خلاف سخت اقدامات کیے جائیں گے بلکہ ایسے شہریوں کے خلاف بھی کارروائی کی جائے گی جو بیرونِ ملک پیدا ہوئے ہیں۔ صدر نے کہا ہے کہ وہ یہ سب ملک میں امن و امان قائم کرنے کے لیے کر رہے ہیں لیکن ناقدین کا کہنا ہے کہ ان کا مقصد فرانس کے دائیں بازو کے ووٹروں کو خوش کرنے کے لیے یہ تاثر دینا ہے کہ وہ تارکین وطن کے سلسلے میں سخت پالیسی اختیار کر رہے ہیں۔

فرانس کے وزیرِ داخلہ Brice Hortefeux نے گذشتہ ہفتے کہا کہ غیر قانونی روما تارکین وطن کو ، جنہیں خانہ بدوش بھی کہا جاتا ہے ، ملک سے نکال دیا جائے گا اور ان کے سینکڑوں کیمپ ختم کر دیے جائیں گے ۔

انھوں نے کہا کہ ایسے روماز کو جنھوں نے امن و امان میں خلل ڈالا ہے یا دھوکہ دہی کے مرتکب ہوئے ہیں، ملک سے نکال دیا جائے گا اورانہیں بلغاریہ یا رومانیہ بھیج دیا جائے گا۔ انھوں نے کہا کہ ان کا مقصد روما کو بدنام کرنا نہیں ہے لیکن یہ امن عامہ کا معاملہ ہے ۔حال ہی میں جنوب مشرقی فرانس میں فساد سمیت امن و امان کے چند واقعات ہوئے ہیں جن میں روما ملوث تھے ۔

مسٹرسارکوزی نے کہا کہ یہ کیمپ انسانوں کی اسمگلنگ اور جسم فروشی کے اڈے ہیں۔

فرانسیسی حکومت نے یہ بھی کہا ہے کہ وہ ایسے غیر ملکیوں سے جنھوں نے فرانسیسی شہریت حاصل کر لی شہریت واپس لے سکتی ہے اگر وہ قانون کی خلاف ورزی کے مرتکب ہوئے ۔ اس نئی پالیسی کا اطلاق ان لوگوں پر ہو گا جنہیں فرانسیسی شہری بنے ہوئے دس برس سے کم ہوئے ہیں اور جو سنگین نوعیت کے جرائم کا ارتکاب کریں گے ۔ اس دوران ایک وڈیو سامنے آیا ہے جس میں دکھایا گیا ہے کہ فرانسیسی پولیس پیرس میں ایک مظاہرے کے دوران تارکین وطن کی عورتوں اور بچوں کو گھسیٹ رہی ہے۔

ایمنیسٹی انٹرنیشنل کے John Dalhuisen کہتے ہیں کہ وڈیو سے یہ بات واضح نہیں ہوتی کہ پولیس نے اپنے اختیارات سے تجاوز کیا تھا یا نہیں۔ لیکن اس وڈیو سے فرانس میں ایک وسیع تر رجحان کی عکاسی ہوتی ہے جس میں تارکین وطن کے خلاف روز بروز زیادہ سخت اقدامات کیے جا رہے ہیں۔

گذشتہ مہینے، فرانس کے ایوانِ زیریں نے پبلک مقامات پر برقعے پر پابندی لگانے کے حق میں ووٹ دیا۔ اس پابندی کے جواز میں کہا گیا کہ نقاب عورتوں پر ظلم کے مترادف ہے اور اس کے نتیجے میں معاشر ے میں مرد اور عورتیں الگ الگ ہو جاتے ہیں۔

Dalhuisen کہتے ہیں کہ اس قسم کے اقدامات سے فرانس میں غیر ملکیوں کو خود سے الگ اور معاشرے کے لیے خطرہ سمجھنے کے رجحان کی عکاسی ہوتی ہے۔’’اس مرحلے پر جو علامتیں دیکھنے میں آ رہی ہیں، جس قسم کی سخت زبان استعمال کی گئی ہے اور پالیسی کے بارے میں جو بیانات دیے گئے ہیں، وہ اچھے نہیں ہیں۔ ان چیزوں سے ایسی صورت حال کا اظہار ہوتا ہے جس میں غیر ملکیوں کے حقوق، ایسے لوگوں کے حقوق جو اکثر خراب حالات میں رہ رہے ہیں، جنہیں سوشل سروسز سے محروم رکھا گیا ہے، جنہیں لیبر مارکیٹ میں روزگار حاصل کرنے کی اجازت نہیں ہے، ان کی زندگی اور مشکل ہو جائے گی۔‘‘

لندن میں قائم مائنارٹی رائٹس گروپ انٹرنیشنل کے ایگزیکٹو ڈائریکٹرMark Lattimer کہتے ہیں کہ یورپ میں تارکین وطن کی مخالف دائیں بازو کی پارٹیاں ابھر رہی ہیں۔’’یورپ میں، خاص طور سے مغربی یورپ میں آج کل جو دائیں بازو کی پارٹیاں ہیں ، وہ بہت کم مقبول ہیں۔ لیکن خطرناک بات یہ ہے کہ بعض اوقات بڑی پارٹیاں مقبولیت حاصل کرنے کے لیے ان پارٹیوں کی پالیسیوں کو اپنا لیتی ہیں۔ بڑی پارٹیاں سمجھتی ہیں کہ تارکین وطن کے خلاف باتیں کرنے سے، انہیں ووٹ مل سکتے ہیں اور وہ اقتدار حاصل کر سکتی ہیں۔ بعض اوقات یہ پارٹیاں یہ عجیب و غریب دلیل پیش کرتی ہیں کہ انتہائی دائیں بازو کی پارٹیوں کی پالیسیوں کو قبول کرنا اس لیے ضروری ہے تا کہ ان پارٹیوں کو اقتدار سے باہر رکھا جا سکے۔‘‘

Lattimer کہتے ہیں کہ ممکن ہے کہ فرانس کے صدر نے بعض بیانات اس لیے دیے ہوں تا کہ دائیں بازو کےووٹرز انہیں ووٹ دیں۔ فرانس کے صدارتی انتخاب میں میں اب دو برس سے بھی کم وقت رہ گیا ہے ۔’’صدر سارکوزی نے کئی بیانات میں تارکین وطن کو نشانہ بنایا ہے ، انھوں نے بعض اقسام کے اسلامی لباس کو فرانس کی سڑکوں پر ممنوع قرار دے دیا ہے ۔ ان بیانات کا عوامی پالیسی کی بنیاد پر کوئی جواز نہیں ہے اور ہو سکتا ہے کہ ان سے فرانس کے آئین کی بھی خلاف ورزی ہوتی ہو۔ لیکن یہ ایسے اقدامات ہیں جن سے انہیں فرانس کی آبادی کے ایک اہم حصے کی حمایت حاصل ہو جائے گی۔ یہ وہ لوگ ہیں جو موجودہ اقتصادی بحران کی وجہ سے پریشانیوں میں گرفتار ہیں۔‘‘

ایمنیسٹی انٹرنیشنل کا اندازہ ہے کہ فرانس میں روماز کی آبادی تقریباً 20,000 ہے ۔ ان میں سے بہت سے وسطی اور مشرقی یورپ کے ملکوں سے ترک وطن کر کے یہاں آئے ہیں۔

XS
SM
MD
LG