رسائی کے لنکس

فرانس کی لڑائی دہشت گردی سے ہے، اسلام سے نہیں: وزیرِاعظم


فائل
فائل

فرانسیسی وزیرِاعظم مینوئل ویلز نے واضح کیا کہ ان کے ملک کی لڑائی کسی مذہب کے خلاف نہیں بلکہ شدت پسندوں سے ہے۔

فرانس کی پارلیمان نے مشرقِ وسطیٰ میں سرگرم شدت پسند تنظیم دولتِ اسلامیہ کے عراق میں واقع ٹھکانوں پر فضائی حملوں کا دائرہ وسیع کرنے منظوری دیدی ہے۔

فرانسیسی پارلیمان نے یہ قدم گزشتہ ہفتے دارالحکومت پیرس میں ہونے والے دہشت گرد حملوں کے بعد اٹھایا ہے جس میں ملوث ملزمان نے مبینہ طور پر دولتِ اسلامیہ سے وفاداری کا اظہار کیا تھا۔ ان حملوں میں 17 افراد ہلاک ہوئے تھے۔

منگل کو فرانس کی قومی اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے فرانسیسی وزیرِاعظم مینوئل ویلز نے واضح کیا کہ ان کے ملک کی لڑائی کسی مذہب کے خلاف نہیں بلکہ شدت پسندوں سے ہے۔

انہوں نے کہا کہ فرانس دہشت گردی، جہادی سوچ اور اسلامی شدت پسندی کے ساتھ حالتِ جنگ میں ہے، لیکن یہ جنگ، ان کے بقول، اسلام اور مسلمانوں کے خلاف نہیں۔

وزیرِاعظم ویلزنے کہا کہ فرانس کے صدر فرانسس اولاں واشگاف الفاظ میں کہہ چکےہیں کہ ان کی حکومت فرانس کے تمام شہریوں کی حفاظت کرے گی اور وہ حکومت کے اس عزم کا اعادہ کرتے ہیں۔

بعد ازاں فرانسیسی پارلیمان کے ایوانِ زیریں نے شام اور عراق میں دولتِ اسلامیہ کے خلاف کارروائی کے لیے امریکہ کی قیادت میں بننے والے اتحاد میں فرانس کی کردار کو مزید وسعت دینے سے متعلق بِل منظور کرلیا۔

بِل کے تحت حکومت کو عراق میں دولتِ اسلامیہ کے ٹھکانوں پر فضائی حملوں میں اضافے کا اختیار دیا گیا ہے۔

دریں اثنا یورپی یونین کی پولیس ایجنسی 'یوروپول' نے منگل کو جاری کی جانے والی اپنی ایک رپورٹ میں دعویٰ کیا ہے کہ گزشتہ تین برسوں کے دوران لگ بھگ پانچ ہزار یورپی باشندوں نے "جہاد" میں شرکت کی غرض سے شام کا رخ کیا ہے۔

رپورٹ کے مطابق ان "رضاکار جہادیوں" کی اپنے ملکوں کو واپسی ایک بڑا مسئلہ بن سکتی ہے کیوں کہ یہ افراد اپنے آبائی ممالک میں شدت پسندی اور دہشت گرد حملوں کو فروغ دے سکتے ہیں۔

XS
SM
MD
LG