رسائی کے لنکس

پاکستان میں ایڈز کے سب سے زیادہ مریض کراچی میں


سندھ ایڈز کنٹرول پروگرام کی جاری کردہ ایک رپورٹ کے مطابق پچھلے کچھ برسوں تک ایڈزکے سب سے زیادہ مریض لاڑکانہ میں تھے مگرتازہ صورتحال کے مطابق سندھ میں ایچ آئی وی سے مجموعی متاثرہ مریضوں میں سے80فیصد کا تعلق کراچی سے ہے


ہفتہ یکم دسمبر کو دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی ایڈز کا عالمی دن منایاجارہا ہے۔ اس دن کو منانے کا مقصد لوگوں میں مرض سے متعلق آگاہی پیدا کرنا ہے ، حیران کن طور پر پاکستان میں ایڈز اور ایچ آئی وی کے بارے میں عام رائے یہ ہے کہ یہ مرض صرف ’ جنسی تعلقات‘ کی وجہ سے پھیلتا ہے لہذا اسے’ بے حیائی‘ تصور کیا جاتا ہے اور عام لوگ اس مرض کو زیر بحث لاتے ہوئے بھی ’گھبراتے ‘یا’ شرماتے‘ ہیں۔

اس کے برعکس شہر میں ایڈز پھیلنے کا سبب بننے والے تمام عوامل بلاروک ٹوک موجود ہیں ۔عام مشاہدے کے تحت سڑکوں کے کنارے ، پارکوں ، میدانوں اور گلی کوچوں میں ایک دوسرے کو منشیات کے انجکشن لگاتے ہیروئن کے عادی افراد، اور ایسے لوگ بھی شامل ہیں جنہیں غربت نے جسم فروشی کی دلدل میں دھکیل دیا ہے۔

سندھ ایڈز کنٹرول پروگرام کے عہدیدار ڈاکٹر سلیمان اوڈھو نے وائس آف امریکہ سے خصوصی بات چیت میں بتایا کہ کراچی صوبہ سندھ کا وہ شہر ہے جہاں ایڈز اور ایچ آئی وی مریضوں میں ہولناک انداز میں اضافہ ہورہا ہے۔

ڈاکٹر سلیمان کے مطابق کراچی میں ہم جنسی پرستی کی وباء پھیلتی چلی جارہی ہے ۔ چونکہ شہر قائد پاکستان کے ہر صوبے اور ہر شہر کے لوگوں کا ذریعہ معاش کی خاطر اہم مسکن ہے اور یہ لوگ کم آمدنی اور کچھ دیگر خاندانی مجبوریوں کے سبب اپنی فیملی خاص کر بیوی کو اپنے ساتھ نہیں رکھ سکتے اور وہ بوجوہ ہم جنس پرستی میں مبتلا ہوجاتے ہیں اور یوں ایڈز یا ایچ آئی وی انہیں گھیر لیتا ہے۔

سندھ ایڈز کنٹرول پروگرام کی جاری کردہ ایک رپورٹ کے مطابق پچھلے کچھ برسوں تک ایڈزکے سب سے زیادہ مریض لاڑکانہ میں تھے مگرتازہ صورتحال کے مطابق سندھ میں ایچ آئی وی سے مجموعی متاثرہ مریضوں میں سے80فیصد کا تعلق کراچی سے ہے، جبکہ صوبے بھر میں ایچ آئی وی اورایڈز سے متاثرہ مریضوں کی تعداد5ہزار182ہوگئی ہے۔ ان میں 226افراد ایڈزاور4ہزار956مریض ایچ آئی وی پازٹیو میں مبتلا ہیں۔ ان میں مردوں کی تعداد4 ہزار688 ،خواتین کی تعداد265 اورخواجہ سراوٴں کی تعداد 3ہے۔

رپورٹ کے مطابق گزشتہ5برسوں کے دوران سندھ میں ایڈز کے سبب مرنے والوں کی تعداد ڈیڑھ سو سے بھی زیادہ ہوگئی ہے ۔ ان میں دس سے زیادہ خواتین، 5لڑکیاں اور باقی مرد تھے۔
XS
SM
MD
LG