رسائی کے لنکس

غزہ کی ناکہ بندی کے خاتمے کے لیے امریکہ کے صلاح ومشورے


فسلطینی صدر محمود عباس کی رواں ہفتے صدر اوباما سے ہونے والی ملاقات
فسلطینی صدر محمود عباس کی رواں ہفتے صدر اوباما سے ہونے والی ملاقات

غزہ کی پٹی کے لیے امداد لے کر جانے والے بحری بیڑے پراسرائیلی کمانڈوز کے حملے کے بعد، جس میں فلسطینیوں کے حامی9 ترک کارکن ہلاک ہوئے، امریکہ غزہ کی پٹی کی اسرائیلی ناکہ بندی ختم کرانے کی تجویزوں پر اپنے اتحادیوں سے مشورے کر رہا ہے۔ امریکی صدر براک اوباما نے کہا ہے کہ موجودہ صورتِ حال بنیادی طور سے غیر مستحکم ہے اورغزہ میں لوگ جن حالات میں رہ رہے ہیں، ان میں نمایاں بہتری آنی چاہیئے۔

اسرائیلی کمانڈوز کے حملے کے فوراً بعد پورے یورپ اور مشرقِ وسطیٰ میں مظاہرین نے احتجاج شروع کردیے۔ ان کا مطالبہ تھا کہ اسرائیل غزہ کی پٹی کی ناکہ بندی ختم کرے۔ اگرچہ امریکہ بین الاقوامی سطح پر اسرائیل کی مذمت کرنے والے ملکوں میں شامل نہیں ہوا ہے، لیکن غزہ میں انسانی مصائب کے بحران کو کم کرنے کے لیے امریکی سفارتکار علاقے میں اور یورپ میں اپنے شراکت داروں سے بات چیت کر رہے ہیں۔

فلسطینی صدر محمود عباس کے ساتھ حالیہ میٹنگ میں صدر اوباما نے کہا کہ موجودہ صورتِ حال ایسی نہیں ہے جو قائم رہ سکے ’’مجھے ایسا لگتا ہے کہ یہ ممکن ہونا چاہیئے کہ ہم اس المیے کو ایک ایسے موقعے میں تبدیل کردیں جس کے ذریعے غزہ میں لوگوں کی زندگیو ں میں واقعی بہتری آ جائے‘‘۔

اسرائیل نے غزہ کے ساتھ سرحد 2007 میں بند کر دی تھی جب حماس نے اس علاقے میں اقتدار حاصل کر لیا تھا۔ اسرائیل چاہتا ہے کہ عسکریت پسند ہتھیار مثلاً راکٹ حاصل نہ کر سکیں جو یہودی مملکت کی سویلین آبادی پر فائر کیے جاتے رہے ہیں۔ امدادی بحری بیڑے پر اسرائیلی حملے سے ساری دنیا کی توجہ غزہ کی صورتِ حال پر مبذول ہو گئی۔

غزہ ایک چھوٹی سے ساحلی پٹی ہے جس میں 15 لاکھ فلسطینی آباد ہیں۔ مشرقِ وسطیٰ کے بعض تجزیہ کار کہتے ہیں کہ یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے کہ غزہ کی ناکہ بندی سے حماس کا زور توڑنے میں کوئی خاص کامیابی نہیں ہوئی ہے ۔امریکہ اور اسرائیل کا کہنا ہے کہ حماس دہشت گرد تنظیم ہے جسے ایران کی حمایت حاصل ہے ۔ امدادی بحری بیڑے پر اسرائیلی حملے میں جو لوگ ہلاک ہوئے ان میں آٹھ ترک تھے اور ایک ترک نژاد امریکی تھا۔ اس واقعے سے ترکی اور اسرائیل کے درمیان تعلقات سخت کشیدہ ہوگئے ہیں جب کہ کافی عرصے تک ان دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات میں کافی گرم جوشی پائی جاتی تھی۔

جارج واشنگٹن یونیورسٹی کے پروفیسر ناتھن براؤن کہتے ہیں کہ غزہ کی ناکہ بندی ختم کرنا اب اور زیادہ مشکل ہو گیا ہے ’’اگر آپ کو ناکہ بندی ختم کرنی ہے تو آپ اپنی شرائط پر اور اپنی پسند کے وقت پر ختم کرنا چاہیں گے۔ اس وقت تو حماس کو پراپیگنڈے کا موقع مل گیا ہے۔ ترکی میں عام لوگوں کی توجہ اسی مسئلے پر مرکوز ہے۔اس وقت تو حالات خاصے خراب ہو چکے ہیں۔‘‘

اسرائیل یہ آس لگائے ہوئے تھا کہ غزہ کا محاصرہ ختم کرنے کے مذاکرات کے نتیجے میں اسرائیلی سپاہی غیلاد شالت کو رہائی مل جائے گی۔ اسے غزہ کے عسکریت پسندوں نے سرحد پار حملے میں 2006 میں پکڑ لیا تھا۔ مشرقِ وسطیٰ کے تجزیہ کار کہتے ہیں کہ بین الاقوامی برادری کو غزہ کی ناکہ بندی میں کچھ نرمی کے لیے مذاکرات کرنا ہوں گے۔ لیہائی یونیورسٹی کے پروفیسر ہنری بارکی کہتے ہیں’’جب تک غیلاد حماس کے قبضے میں ہے، کسی بھی اسرائیلی حکومت کے لیے اچانک یہ کہنا مشکل ہو گا کہ ہم اپنی پالیسی بدل رہے ہیں۔ عالمی سطح پر کسی قسم کا کوئی سودا کرنا ہوگا۔‘‘

تجزیہ کار کہتے ہیں کہ غزہ کی سرحد پر کوئی ایسی اتھارٹی نہیں ہے جسے بین الاقوامی سطح پر تسلیم کیا جاتا ہو۔ سیکورٹی کے لیے جو بھی اقدامات کیے جائیں گے ان میں فلسطینی اتھارٹی کو حماس کے ساتھ تصفیہ کرنا ہوگا یا کم از کم اس کے ساتھ تعاون کرنا ہوگا۔

امدادی بحری بیڑے پر حملہ ایسے وقت میں ہوا ہے جب امریکہ کی کوششوں سے اسرائیلیوں اور فلسطینیوں کے درمیان بالواسطہ مذاکرات شروع ہورہے ہیں۔ یہ مذاکرات صدر اوباما کی خارجہ پالیسی کی اولین ترجیحات میں شامل ہیں۔’’اس مسئلے کا پائیدار حل صرف اسی صورت میں ممکن ہے جب اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ اسرائیل کے ساتھ ساتھ ایک فلسطینی ریاست موجود ہو اور اسرائیل محفوظ ہو۔ ہم ان وقتی مسائل سے نمٹتے رہیں گے لیکن ہمیں اپنی نظریں دور افق پر رکھنی ہیں اور یہ بات سمجھنی ہے کہ ہماری اصل توجہ مسئلے کے طویل المدت حل پر ہونی چاہیئے ۔‘‘

امریکہ نے غزہ میں رہنے والے فلسطینیوں کے حالِ زار پر ہمدردی کا اظہار کیا ہے لیکن اس کا اصرار ہے کہ ناکہ بندی کے مسئلے کے حل میں اسرائیل کی سکیورٹی کی ضرورتوں کو بھی سامنے رکھنا ہوگا۔

XS
SM
MD
LG