رسائی کے لنکس

ترقی پذیر ملکوں کی لڑکیوں کی تعلیم وتریبت کا عالمی پروگرام


پشاور میں لڑکیوں کا یہ عارضی سکول اس وقت بنایا گیا جب شدت پسندوں نے ان کے مستقل سکول کو آگ لگا دی تھی
پشاور میں لڑکیوں کا یہ عارضی سکول اس وقت بنایا گیا جب شدت پسندوں نے ان کے مستقل سکول کو آگ لگا دی تھی

پاکستا ن میں پانچ سال قبل آنے والے زلزلے نے لاکھوں لوگوں کی زندگی ہمیشہ کے لیے بدل دیں اور ان میں ایسی ہزاروں لڑکیاں بھی شامل ہیں جن کی تعلیم اور مستقبل بری طرح متاثر ہوئے۔اسی طرح دنیا کےاور بہت سے حصوں میں بھی لڑکیوں کی ایک بڑی تعداد تعلیم اور معاشی مواقعوں کی منتظر ہے ۔اس سلسلے میں ورلڈ بینک اور نائیکی فاؤنڈیشن مختلف ممالک کی حکومتوں کے تعاون سے ایک ایسے پروگرام پر کام کر رہے ہیںٕ جس کا مقصد غریب اورترقی پذیر ملکوں کی لڑکیوں کواپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کے قابل بنانا ہے۔

امریکی اداکارہ این ہاتھاوے نے ایک تقریب میں بنگلہ دیش کی ایک غریب لڑکی سانچیتا کی کہانی کچھ ان میں سنائی کہ سننے والے اس میں کھوگئے۔

ساچیتا کا تعلق بنگلہ دیش کے ایک چھوٹے سے گاؤں ایشورپور سے ہے۔ وہ کہتی ہے کہ جب میرے گاؤں میں جب بھی کوئی بچہ پیدا ہونے والا ہوتا ہے تو سب یہی امید کرتے ہیں کہ لڑکا ہو۔ایسا ہمیشہ سے ہوتا آیا ہے۔لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ لڑکا غربت میں اپنے خاندان کے کام آئے گا۔

یہ ان حالات کی منظر کشی ہے جن کا سامنا نوجوان لڑکیوں کے لیے ورلڈ بینک کے اس پروگرام میں شامل لڑکیوں کو کرنا پڑتا ہے۔ ساچیتا کی طرح یہ لڑکیاں بھی اس پروگرام کے تحت دنیا کا دورہ کررہی ہیں، جس کے ذریعے انھیں تعلیم کے ساتھ وہ مہارت بھی مہیا کرنا ہے جس کے ذریعے وہ ملازمت حاصل کر سکیں۔

17 سالہ ساچیتا کو ایک آرگنائزیشن نے تعلیم حاصل کرنے کا موقع دیا اور اس کے خاندان کو ایک گائے خریدنے کے لیے قرضہ دیا تاکہ وہ اپنا کاروبار کرسکیں۔ این ہاتھاوے کہتی ہیں کہ اب اس کا کاروبار چل پڑا ہےاور ساچیتا اپنی اور اپنے بھائی کی سکول کی فیس بھی خود دے سکتی ہے۔ اس کے خاندان کے پاس کھانے کو ہے۔ اور اس کا کہناہے کہ اب وہ یہ فیصلہ خودکرے گی کہ اسے شادی کب کرنی ہے، جب غریب گھرانوں کے والدین اپنی بیٹی کی جلد ازجلد شادی کے لیے فکر مند رہتے ہیں۔

اس کہانی کی طرح ، نوجوان لڑکیوں کے لیے شروع کیے گئے اس پروگرام کا مقصد دنیا کے ترقی پذیر اور غریب ملکوں کی 60 کروڑ نوجوان لڑکیوں کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنا ہے۔ ان ممالک میں لڑکیوں کی ایک تہائی آبادی نہ تو پڑھتی اور نہ ہی کوئی ملازمت کر پاتی ہے۔

ورلڈ بینک کے صدر رابرٹ زولیک کاکہنا ہے کہ لڑکیوں کی تعلیم پر دھیان نہ دینا ہی ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہے۔انھوں ے مزید کہا کہ غریب خاندانوں کی لڑکیوں کی تعلیم بہت ضروری ہے۔ سیکنڈری سکول میں ایک سال زیادہ کی پڑھائی ان کی کمائی کو 10 سے 20 فیصد تک اضافہ کرسکتی ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ اگر ان کی کمائی بڑھے گی تو وہ اچھی صحت کے لیے بہتر سہولیات حاصل کرسکیں گی۔ شادی اور بچوں کے بارے میں بہتر فیصلے کرسکیں گی ۔ اس سے خواندگی کی صورتحال بھی بہتر ہو گی ۔ چنانچہ نوجوان لڑکیوں کی تعلیم اور ترقی پر سرمایہ کاری کے ذریعے غربت پر بھی قابو پایا جاسکتا ہے۔

سرکاری اور غیر سرکاری شراکت اور 20 ملین ڈالر کے بجٹ کے ساتھ یہ پروگرام دنیا کے سات ملکوں میں کام کررہا ہے۔اس پروگرام کا آغاز یمن اور ہیٹی میں بھی ہورہاہے۔

ماریا بویویچ ورلڈ بینک کے جینڈر اینڈ ڈیولپمنٹ پروگرام کی ڈائریکٹر ہیں۔وہ کہتی ہیں کہ ہم کہاں ہیں۔ لائبیریا اور نیپال میں نوجوان لڑکیاں اپنی تربیت کا پہلا مرحلہ مکمل کر رہی ہیں۔ جنوبی سوڈان کے چار صوبوں میں اس پروگرام کا آغاز ہو رہا ۔ اردن میں خواتین کالج گریجوایٹس کو ملازمت تک رسائی حاصل ہو رہی ہے۔ افغانستان اور روانڈا میں صورتحال کا جائزہ لیا جاچکا ہے اور تین مہینوں میں وہاں کام شروع ہو جائے گا۔

کابی کامارہ نے لائبیریا میں اس پروگرام کے تحت تربیت حاصل کی۔وہ کہتی ہیں کہ میں نے اپنا کاروبار شروع کرنا سیکھا۔ خود کفالت ، پیسہ بچانا اور اسے صحیح جگہ استعمال کرنا سیکھا۔ اور یہ کہ اپنے کاروبار کو کیسے بڑھانا ہے۔

19 سالہ سارہ پونی کا تعلق سودان سے ہے وہ یہاں امریکہ میں تربیت کے لیے آئی ہیں۔وہ کہتی ہیں کہ میں نے اپنے خیالات کو بہتر طریقے سے پیش کرنا سیکھا۔ آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بولنے سے مجھے لوگوں سے بات کرنے کا اعتماد ملا ہے۔ اب میں سارہ نہیں بلکہ کوئی اور ہوں۔

پر اعتماد سارہ اپنے وطن سوڈان واپس جاکر اپنی تربیت اور خود اعتمادی کے ذریعے نہ صرف اپنی بلکہ اپنے خاندان کی زندگی کو بہتر بنانے کا خواب لیے ہوئے ہیں۔

XS
SM
MD
LG