رسائی کے لنکس

توانائی کا عالمی بحران ۔۔۔ حل کیا ہے؟


Women embrace in grief after an attack in Kibusu village in the Tana Delta region of the Kenya, January 10, 2013.
Women embrace in grief after an attack in Kibusu village in the Tana Delta region of the Kenya, January 10, 2013.

پاکستان سمیت دنیا کے کئی ممالک توانائی کے بحران کا شکار ہیں جس کے باعث انہیں معیشت کے ساتھ ساتھ روزمرہ زندگی میں کئی مسائل کا سامنا ہے۔ ماہرین یہ جائزہ لینے میں مصروف ہیں کہ اس بحران کی نوعیت کیا ہے؟ کیا یہ عالمی رخ اختیار کرسکتا ہے ؟ اور اس صورت حال پر بھارت اور چین جیسے ممالک کی تیزی سے ترقی کرتی معیشتیں کیا اثر ڈال رہی ہیں؟

اس وقت دنیا کی مضبوط ترین معیشتیں بھی توانائی کے بحران سے مکمل طور پر محفوظ نہیں ہیں ۔ پیٹر سن انسٹی ٹیوٹ فار انٹرنیشنل اکنامکس نامی تھنک ٹینک سے منسلک سینئیر تجزیہ کار ولیم کلائین کہتے ہیں کہ کئی ممالک کو توانائی کی شدید قلت کا سامنا ہونے کے باوجود اس بحران کی نوعیت ابھی عالمی سطح کی نہیں۔ ان کا خیال ہے کہ اگر تیل کی قیمت ڈیڑھ سو سے دو سو ڈالرز فی بیرل ہو جاتی ہے تو پھر عالمی بحران پیدا ہوسکتا ہے ۔

انفرادی سطح پر دنیا کے کئی ممالک کو توانائی کی قلت کا سامنا ہے ۔ جو کبھی بجلی ، کبھی تیل اور کبھی ایندھن کی کمی کی شکل میں عام لوگوں کی زندگیوں کو متاثر کررہی ہے ۔ ماہرین کی اکثریت اس سے متفق ہے کہ توانائی کی کمی کے مسئلے کی بڑی وجہ دنیا کا تیل پر حد سے زیادہ انحصار ہے ۔

ابھرتی ہوئی معیشتں ، مثلاً چین ، بھارت اور برازیل جیسے ممالک ہیں جن کی تیز رفتار صنعتی ترقی کو کئی ماہرین توانائی کے بحران کے لیے مورد الزام ٹہرارہے ہیں ۔ ان معیشتوں میں ترقی کی رفتار دیگر صنعتی ممالک کے مقابلے میں سالانہ اندازً تین فیصد زیادہ ہے اس لیے توانائی اور دوسرے خام مال کا استعمال بھی یہاں ترقی یافتہ ممالک کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے۔

تاہم ولیم کلائین کی رائے میں توانائی کی قلت کے بڑھتے ہوئے مسئلے کے لیے صرف ابھرتی ہوئی معیشتوں کو ذمے دار ٹہرانا منصفانہ نہیں ۔وہ کہتے ہیں کہ اس کی اصل وجہ توانائی کے وسائل میں اضافے اور متبادل ذرائع کی تلاش کے لیے مناسب منصوبہ بندی نہ کرناہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ بحران توانائی کی کسی بھی قسم کا ہو اس سے پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک کی عوام نسبتاً زیادہ متاثر ہوتی ہے ۔ سوال یہ ہے کہ اس کا حل کیا ہو ۔

ولیم کلائین کہتے ہیں کہ میری رائے میں اس کا حل بین الاقوامی سطح پر ہنگامی صورت حال کے لیے تیل کے ذخائر میں اضافہ کرنا، طویل مدت کے لیے تیل کی ایک بہتر اور مستحکم قیمت برقرار رکھنا اور کاربن سے پاک توانائی کی اقسام کے استعمال کی حوصلہ افزائی کرنا ہے ۔

عالمی حدت میں اضافہ توانائی کی قلت کے مسئلے کی شدت میں مزید اضافہ کر رہا ہے ۔ گزشتہ کچھ عرصے سے بھارت اور چین سمیت کچھ ممالک میں توانائی کے متبادل ذرائع کی تلاش اور ان کا استعمال بڑھانے کی کوششوں میں اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے ۔ ماہرین کوتوقع کہ یہ ممالک نہ صرف متبادل ذرائع سے اپنی توانائی کی بڑھتی ہوئی ضروریات پوری کرنے میں آگے بڑھ سکیں گے بلکہ آلودگی کے مسئلے پر قابو پانے میں بھی پیش رفت کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے۔

XS
SM
MD
LG