رسائی کے لنکس

عالمی تپش کا مسئلہ اور میکسیکو عالمی کانفرنس سے توقعات


عالمی تپش کا مسئلہ اور میکسیکو عالمی کانفرنس سے توقعات
عالمی تپش کا مسئلہ اور میکسیکو عالمی کانفرنس سے توقعات

ماہرین کو امید ہے کہ کین کن کانفرنس میں آب وہوا کی تبدیلیوں کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے کچھ مثبت اقدامات کیے جائیں گے، کیونکہ اس پرپوری دنیا کا اس پر انحصار ہے۔

پچھلے سال اقوام متحدہ کے زیر اہتمام عالمی تپش کے بڑھتے ہوئے خطرے سے نمٹنے کے لیے کوپن ہیگن میں ہونے والی کانفرنس کئی معاہدے پر نہیں پہنچ سکی تھی ۔ اس سلسلے کی ایک اور کانفرنس دسمبر میں میکسیکو کے شہر کین کن میں ہورہی ہے ۔ تاہم ماحولیات کے تحفظ کے لیے کام کرنے والے کارکنوں کو اس کانفرنس کے نتیجہ خیز ہونے کی بھی توقع نہیں ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ حکومتوں کو اس خطرے سے نمٹنے کے لیے سنجیدہ اقدامات کرنے چاہیں۔

پچھلے سال کوپن ہیگن کی کانفرنس میں ماحول سے متعلق کچھ معاملات پر اتفاق رائے تو ہوا مگرایسا کوئی ایسا معاہدہ طے نہ پا سکا ، جس کے گرین ہاؤس گیسوں کا اخراج کم کرنے میں مدد مل سکتی۔ اکثر ممالک عمومی طور پر کاربن گیسوں کے اخراج کم کرنے پرتو متفق ہیں مگر وہ ایسا کوئی قدم اٹھانے سے گھبراتے ہیں جس کا اثر ان کی معاشی ترقی پر پڑے۔

ماحول کے لئے کام کرنے والے ایک ادارے کلائمیٹ ایکشن نیٹ ورک انٹرنیشنل کے سربراہ ڈیوڈ ٹربل کہتے ہیں بہت سے ملکوں کے قومی تحفظات کی وجہ سے کوپن ہیگن میں معاہدہ نہیں ہوسکا۔

ان کا کہنا ہے کہ ایسا ہر گز نہیں کہ اقوام متحدہ کی کوئی غلطی تھی یا اتقاق رائے پیدا کرنے کے لیے کوئی ڈھانچہ موجود نہیں تھا۔ بلکہ تمام ملکوں کے اندرونی سیاسی حالات کی وجہ سے معاہدہ طے نہیں پا سکا۔

ڈیوڈ کہتے ہیں کہ کین کن کانفرنس کے شرکا ءکو غریب ممالک کی مدد پر توجہ دینی چاہیے تاکہ وہ ترقی کے عمل کو متاثر کئے بغیر گیسوں کااخراج کم کر سکیں۔

ان کا کہنا ہے کہ ہم چاہتے ہیں کہ وہ کاربن کے اخراج کو کم کرنے یا بالکل ختم کرنے کے لئے کوئی کائحہ عمل پیش کریں۔ اس طرح کے منصوبوں سے ترقی میں کسی رکاوٹ کے بغیر کاربن کم کرنے کے طریقے تلاش کئے جا سکتے ہیں۔

ایک شعبہ جس میں کین کن کانفرنس کے شرکا آگے بڑھ سکتے ہیں، وہ جنگلات کی کٹائی ہے۔ سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ یہ مسئلہ گلوبل وارمنگ یا عالمی حدت کی سب سے بڑی وجہ ہے۔ ماحولیاتی ماہرین چین، بھارت اور دوسرے تیزی سے ترقی کرنے والے ممالک میں بجلی کے پلانٹس ، گاڑیوں اورکارخانوں سے نکلنے والی گیسوں میں اضافے سے بھی فکر مند ہیں۔ چین سب سے زیادہ کاربن اور گرین ہاؤس گیسیں خارج کرنے والا ملک ہے۔ پچھلے سال کی کانفرنس میں اس نے اپنے طور پر ان میں کمی لانے کا وعدہ کیا تھا۔ رائس یونیوورسٹی سے منسلک ایک پالیسی ساز ماہر نیل لین کا خیال ہے کہ چین کا متفق ہونا دنیا بھر میں ماحول کی تبدیلی کے مسائل کے حل کے طرف مثبت قدم ہے۔

مگر حقیقی معاہدوں کے بغیر یہ جاننے کے لئے کوئی لائحہ عمل موجود نہیں کہ آیا یہ ممالک مؤثر اقدامات کر رہے ہیں یا نہیں اور اگر وہ نہیں کر رہے تو اس کے کیا نتائج ہو سکتے ہیں۔ نیل جو سابق امریکی صدر بل کلنٹن کے دور میں ان کے مشیر تھے، کہتے ہیں کہ وہ توقع رکھتے ہیں کہ کین کن کانفرنس میں سارے عمل کوشفاف بنانے کی کوشش کی جائے گی۔

میں چیزوں کو شفاف بنانے کے معاملے کو آگے بڑھتا دیکھنا چاہوں گا کیونکہ اعتماد سب سے اہم ہے۔اکثر اوقات مختلف ممالک بہت عام فہم معاملے پر اس لئے اتفاق نہیں کر پاتے کیونکہ ان میں اعتماد کا فقدان ہوتا ہے۔

نیل یہ بھی توقع رکھتے ہیں کہ کین کن کانفرنس میں شرکاء ایسے اقدامات پر غور کریں کہ کس طرح امیر ممالک غریب ممالک کے لئے فنڈز مہیا کر یں تاکہ وہ حالات کو موافق بنا سکیں ا ور آنے والے برسوں میں ماحول کی تبدیلی کے اثرات سے بہتر طور پر نمٹ سکیں۔ وہ کہتے ہیں کچھ سال پہلے تک وہ ان اثرات کے بارے مین تذبذب کا شکار تھے مگر اب سائنس کی وجہ سے اس کی خطرات سے بخوبی آگاہ ہیں ۔

ماہرین کو امید ہے کہ کین کن میں کچھ مثبت اقدامات لئے جائیں گے اس لئے کہ پوری دنیا کا اس پر انحصار ہے۔

XS
SM
MD
LG