رسائی کے لنکس

یونان کے لیے نیا ’بیل آوٹ پیکج‘ منظور، معاہدہ طے پاگیا


یونان کے وزیرِاعظم ایلکسس سپراس برسلز میں یورو زون ملکوں کے سربراہی اجلاس کے بعد صحافیوں سے گفتگو کر رہے ہیں
یونان کے وزیرِاعظم ایلکسس سپراس برسلز میں یورو زون ملکوں کے سربراہی اجلاس کے بعد صحافیوں سے گفتگو کر رہے ہیں

یورپی کمشن کے صدر جین کلاڈ جنکر نے 17 گھنٹے طویل مذاکرات کے خاتمے پر نامہ نگاروں سے بات کرتے ہوئے کہا ’’معاہدہ بہت محنت طلب تھا، مگر اسے طے کر لیا گیا ہے۔ یونان یوروزون سے خارج نہیں ہو گا۔‘‘

یورو زون کے رہنماؤں نے ایک ہنگامی سربراہ اجلاس میں ساری رات مذاکرات کے بعد پیر کو یونان کے ساتھ تیسرے بیل آؤٹ پر ایک معاہدے کا اعلان کیا ہے۔

تاہم جرمنی کی قیادت میں عالمی قرض دہندگان کی جانب سے عائد کی گئی شرائط سے بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے یونان کے وزیرِ اعظم الیکسیس سیپراس پر مزید دباؤ بڑھ سکتا ہے۔

اگر یہ اجلاس ناکام ہو جاتا تو یونان اقتصادی بدحالی کی کھائی میں جا گرتا۔ اس کے بینک بند اور ناکام ہونے کے قریب ہیں اور اسے یوروزون سے نکلنے کے بعد وقت پر اپنی کرنسی چھاپنے کی ضرورت پیش آتی۔

یورپی کمشن کے صدر جین کلاڈ جنکر نے 17 گھنٹے طویل مذاکرات کے خاتمے کے بعد نامہ نگاروں سے بات کرتے ہوئے کہا ’’معاہدہ بہت محنت طلب تھا، مگر اسے طے کر لیا گیا ہے۔ یونان یوروزون سے خارج نہیں ہو گا۔‘‘

انہوں نے اس خیال کو مسترد کیا کہ جرمنی کی طرف سے تجویز کی گئی ان دور رس شرائط کو ماننے سے سیپراس کی ہتک ہوئی ہے جن کی مزاحمت کرنے کا وہ طویل عرصہ سے وعدہ کرتے رہے ہیں۔

’’اس سمجھوتے میں کوئی فاتح یا مفتوح نہیں ہے۔ میرا نہیں خیال کہ اس سے یونانی عوام کی توہین ہوئی ہے، یا دوسرے یورپیوں کے وقار پر کوئی حرف آیا ہے۔ یہ ایک معمول کا یورپی معاہدہ ہے۔‘‘

پانچ برس سے جاری دم گھوٹنے والی کفائت شعاری کا خاتمہ کرنے کے وعدے پر پانچ ماہ قبل منتخب ہونے والے سیپراس نے کہا کہ انہوں نے اور ان کے ساتھیوں نے ’’ایک سخت جنگ لڑی‘‘، مگر انہیں مشکل فیصلے کرنا پڑے۔

وہ آئندہ تین سال کے دوران ادا کیے جانے والے 86 ارب یورو کے ممکنہ قرض کے ایک مشروط معاہدے پر اتفاق رائے پیدا کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔

اس کے علاوہ انہیں یہ یقین دہانی بھی کرائی گئی ہے کہ چند گھنٹوں کے اندر یوروزون کے وزرائے خزانہ اس بات پر مذاکرات شروع کریں گے کہ یونان میں سرمائے کے بحران کو بیل آؤٹ معاہدے کی یونانی پارلیمان سے منظوری اور اس کی رقم ملنے سے قبل عرصہ کے دوران کیسے حل کیا جائے۔

سمجھوتا

یورپی رہنماؤں کا کہنا ہے کہ سیپراس نے بالآخر جرمنی کی طرف سے تجویز کیے گئے یونان کے پچاس ارب یورو مالیت کے سرکاری اثاثہ جات کی قرقی کے مطالبے کو تسلیم کر لیا ہے۔

ان اثاثہ جات کو فروخت کے بعد ان سے حاصل ہونے والی رقم کو حکومت کی پہنچ سے دور ایک علیحدہ ٹرسٹ فنڈ میں جمع کرایا جائے گا اور اسے بنیادی طور پر یونان کے قرضوں کی ادائیگی کے لیے استعمال کیا جائے گا۔

جرمنی کی چانسلر آنگلا مرخیل نے کہا ہے کہ یونان کے ساتھ خوش اخلاقی کے مظاہرے کے طور پر اثاثہ جات سے حاصل ہونے والی رقوم میں سے 12.5 ارب ڈالر یورو کی یونان میں سرمایہ کاری کی جائے گی۔

سیپراس کو 86 ارب ڈالر کے بیل آؤٹ قرض کی فراہمی میں بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے مکمل عمل دخل کے مطالبہ کو بھی ماننا پڑا، جو مرخیل کے مطابق برلن میں پارلیمانی حمایت کے لیے ضروری ہے۔

سپراس کے لیے اس معاہدے کو قبول کرنے کے لیے اپنی ’سریزا پارٹی‘ کو قائل کرنا بھی مشکل ہو گا۔ اس کا اشارہ وزیر محنت پینوس سکورلیٹس کے اس بیان سے ملتا ہے کہ بیل آؤٹ کی شرائط ناقابل عمل ہیں اور اس سال نئے انتخابات پر منتج ہو سکتی ہیں۔

شرائط میں شامل اخراجات میں کمی، ٹیکسوں میں اضافے اور پینشن اصلاحات سمیت چھ بنیادی اقدامات کے بدھ تک اطلاق اور بات چیت شروع ہونے سے قبل اس معاہدے کی پارلیمان سے منظوری کو لازمی قرار دیا گیا ہے۔

یونان کو نئے مجوزہ معاہدے میں معمولی رعایت دی گئی ہے۔ سیپراس نے اتوار کو برسلز آنے کے بعد کہا تھا کہ وہ یورپ کو متحد رکھنے کے لیے ایک اور ’’مخلص سمجھوتا‘‘ چاہتے ہیں۔

صرف فرانس اور اٹلی نے یونان پر لاگو کی جانے والی شرائط کو نرم کرنے کی کوشش کی۔

XS
SM
MD
LG