رسائی کے لنکس

یونان سے بے دخل 45 پاکستانی تارکین وطن کی ترکی واپسی


ترک مسافر کشتی یونان سے پناہ گزینوں کو لے کر جمعے کو ترکی واپس پہنچی۔
ترک مسافر کشتی یونان سے پناہ گزینوں کو لے کر جمعے کو ترکی واپس پہنچی۔

یونانی حکام کا کہنا ہے کہ واپس بھیجے گئے افراد نے یورپی یونین میں پناہ کی درخواست نہیں دی تھی۔ جب کہ توقع ہے کہ جمعے کو مزید درجنوں تارکین وطن کو لیسبوس جزیرے سے ترکی واپس بھیجا جائے گا۔

ترکی اور یورپی یونین کے درمیان طے پانے والے ایک متنازع معاہدے کے تحت یونان نے مزید پناہ گزینوں کو ترکی واپس بھیجا ہے جن کے بدلے میں اتنی ہی تعداد میں ترک کیمپوں میں مقیم پناہ کے اہل شامیوں کو یورپ میں آباد کیا جائے گا۔

انسانی حقوق کے کارکنوں کے احتجاج کے باوجود جمعے کو ترکی کی ایک کشتی یونان کے جزیرے لیسبوس سے 45 پاکستانیوں لے کر ترکی پہنچی۔

دو کارکنوں نے کشتی کو جانے سے روکنے کے لیے پانی میں چھلانگ لگا کر اس کے لنگر سے جڑی بھاری زنجیر کے ساتھ لٹکنے کی کوشش کی جس کے بعد انہیں گرفتار کر لیا گیا۔

اس سے قبل پاکستان کے دفتر خارجہ کے ترجمان نے کہا تھا کہ 4 اپریل کو یونان سے ترکی کی ڈکیلی بندرگاہ پر بھیجے گئے 202 افراد میں 130 پاکستانی بھی شامل تھے۔

انہوں نے کہا کہ ایتھنز میں پاکستان کے سفیر مزید معلومات کے لیے یونانی حکام سے رابطے میں ہیں۔

خبررساں ادارے رائیٹرز نے کہا ہے کہ ترکی کی پارلیمان نے ایک معاہدے کی توثیق کی ہے جس کے تحت انقرہ پاکستانی تارکین وطن کو ان کے ملک واپس بھیج سکے گا۔

پاکستان حکام نے ابھی اس خبر کی تصدیق نہیں کی تاہم بظاہر ایسا لگتا ہے کہ ترکی یونان سے واپس بھیجے گئے پاکستانیوں کو اپنے ملک میں پناہ دینے کی بجائے پاکستان واپس بھیجنا چاہتا ہے۔

معروف صحافی اور انسانی حقوق کے سرگرم کارکن ڈاکٹر مہدی حسن نے کہا کہ پاکستانی روزگار کی تلاش میں غیرقانونی طور پر یورپ جانے کے لیے طویل عرصے سے یونان کا راستہ استعمال کر رہے ہیں اور ان کو کئی مرتبہ واپس بھی بھیجا جا چکا ہے۔

’’پکڑے بھی جاتے ہیں لوگ، مشکلات بھی آتی ہیں ان کو درپیش اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں بھی منظر عام پر آتی ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ یہ سرحد کیسے پار کر جاتے ہیں پاکستان کی؟‘‘

حالیہ مہینوں میں دنیا بھر سے خصوصاً یورپی یونین سے ایک بڑی تعداد میں غیر قانونی طور پر سفر کرنے والے پاکستانیوں کی ملک بدری کے بعد پاکستان کی حکومت نے ملک بھر میں انسانی سمگلنگ کے خلاف کارروائی کا آغاز کیا ہے اور حکام کے بقول اب تک سینکڑوں مشتبہ افراد کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔.

توقع ہے کہ جمعے کو مزید 80 تارکین وطن کو لیسبوس جزیرے سے ترکی واپس بھیجا جائے گا۔

یونانی حکام کا کہنا ہے کہ واپس بھیجے گئے افراد نے یورپی یونین میں پناہ کی درخواست نہیں دی تھی۔ یورپی یونین نے اس ہفتے کے اوائل میں اعلان کیا تھا کہ وہ ملک بدری کے خطرے سے دوچار تمام پناہ گزینوں کو ترکی واپس بھیجے جانے سے قبل پناہ کی درخواست دینے کا موقع دے گا۔

جمعرات کو کیتھولک کلیسا کے مرکز ویٹیکن نے اعلان کیا تھا کہ پوپ فرانسس جزیرے میں مقیم پناہ گزینوں سے ملنے 16 اپریل کو لیسبوس جائیں گے۔

ویٹیکن کا کہنا ہے کہ پوپ فرانسس آرتھوڈوکس مسیحی چرچ کے رہنما ایکومینیکل پیٹری آرک بارتھولومیو اور یونانی صدر پروکوپس پاولوپولوس کی دعوت پر یہ دورہ کر رہے ہیں اور ایتھنز کے آرچ بشپ جیروم ٹو بھی لیسبوس دورے کے دوران ان کے ہمراہ ہوں گے۔

اس دورے کو شام میں جنگ اور غربت سے بھاگنے پر مجبور ہونے والے پناہ گزینوں کی حالت زار کی طرف عالمی توجہ دلانے کے لیے ایک علامتی اقدام کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔

یورپی یونین کے حکام نے بدھ کو اس عزم کا اظہار کیا کہ یورپ پہنچنے والے کسی شخص کو پناہ کی درخواست کا موقع دیے بغیر ’’خود کار طریقے سے واپس‘‘ نہیں بھیجا جائے گا۔ جن افراد کو پناہ کے لیے نااہل قرار دیا جائے گا وہ اس فیصلے کے خلاف پانچ روز کے اندر اپیل کر سکیں گے۔

ملک بدری کے خلاف پناہ گزینوں کے مظاہروں کے بعد پناہ کی درخواستوں کو نمٹانے کے لیے یورپی اسائلم سپورٹ آفس کے 70 اہلکار بدھ کو لیسبوس جزیرے پر پہنچنے۔

پناہ گزینوں کے بحران سے نمٹنے کے لیے مارچ میں یورپی یونین اور ترکی کے درمیان طے پانے والے معاہدے کے بعد یورپ پہچنے والے پناہ گزینوں کو واپس ترکی بھیجا جا رہا ہے۔

سرگرم کارکنوں نے پناہ گزینوں کو واپس ترکی بھیجنے پر اپنی تشویش کا اظہار کیا ہے کیونکہ ترکی کا انسانی حقوق کا ریکارڈ بہت اچھا نہیں۔

XS
SM
MD
LG