رسائی کے لنکس

یونان ریفرنڈم: رائے دہندگان نے بیل آؤٹ کی شرائط مسترد کردیں


Greece Bailout
Greece Bailout

یونان کی وزارتِ داخلہ کے ایک عہدیدار نے تصدیق کی ہے کہ ریفرنڈم کے دوران بیل آؤٹ پیکج کی مخالفت میں ڈالے جانے والے ووٹوں کی شرح 60 فی صد کے لگ بھگ ہے۔

یونان میں قرض دینے والے ملکوں اور اداروں کی شرائط تسلیم کرنے یا نہ کرنے کے معاملے پر ہونے والے ریفرنڈم میں عوام کی اکثریت نے "نہیں" کے حق میں ووٹ دیا ہے۔

مغربی ذرائع ابلاغ کے مطابق اتوار کو ہونے والے ریفرنڈم کے بیشتر ووٹوں کی گنتی مکمل ہوچکی ہے جس کے مطابق لگ بھگ 61 فی صد رائے دہندگان نے معیشت کی بحالی کے لیے بین الاقوامی 'بیل آؤٹ پیکج' کی شرائط مسترد کرنے کے حق میں ووٹ دیا ہے۔

خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کے مطابق یونان کی وزارتِ داخلہ کے ایک عہدیدار نے بھی تصدیق کی ہے کہ پیکج کی مخالفت میں ڈالے جانے والے ووٹوں کی شرح 60 فی صد کے لگ بھگ ہے۔

یونان کے عوام کی جانب سے بیل آؤٹ کی شرائط مسترد کیے جانے کے بعد یونان کا معاشی مستقبل مزید غیر یقینی کا شکار ہوگیا ہے جو 19 ملکی 'یورو زون' سے یونان کے اخراج اور ملکی بینکنگ نظام کے دیوالیے پر منتج ہوسکتا ہے۔

یونان کی سوشلسٹ حکومت کے وزیرِاعظم ایلکسس سپرااس نے قرض دہندگان کی شرائط کو "بلیک میلنگ" اور "ملکی وقار کے منافی" قرار دیتے ہوئے گزشتہ ہفتے انہیں قبول کرنے یا نہ کرنے کے لیے ریفرنڈم کرانے کا اعلان کیا تھا۔

وزیرِاعظم سیپراس اور ان کی حکومت نے یونان کے عوام سے اپیل کی تھی کہ وہ ریفرنڈم کے دوران قرض دہندگان کی شرائط کی مخالفت میں ووٹ دیں تاکہ وہ قرض دہندگان سے اپنی شرائط پر نظرِ ثانی اور از سرِ نو مذاکرات کرنے کا مطالبہ کرسکیں۔

لیکن یورو زون کے رکن ملکوں نے خبردار کیا تھا کہ ریفرنڈم میں یونانی عوام کی جانب سے قرض کی شرائط مسترد ہونے کا مطلب "یورپ کے ساتھ رابطے توڑنا" لیا جائے گا جس کے نتیجے میں یونان کا معاشی نظام دیوالیے اور مکمل بحران کا شکار ہوسکتا ہے۔

ریفرنڈم کے اعلان کے ساتھ ہی یونان کی حکومت نے گزشتہ پیر سے ملک بھر میں بینک بند کردیے تھے تاکہ کھاتے داروں کو رقوم نکالنے سے روکا جاسکے۔

حکومتی اہلکاروں کا کہنا ہے کہ یونان کے بینکوں کے پاس موجود کرنسی کے ذخائر آئندہ چند روز میں ختم ہو جائیں گے اور اگر 'یورپین سینٹرل بینک' نے ہنگامی بنیادوں پر رقم فراہم نہ کی تو بینکوں کے پاس کھاتے داروں کو دینے کے لیے رقم نہیں ہوگی۔

لیکن ریفرنڈم میں قرض کی شرائط مسترد ہونے کے بعد امکان ہے کہ 'یورپین سینٹرل بینک' کے ذمہ داران یونان کو ہنگامی بنیادوں پر مزید رقم فراہم کرتے ہوئے ہچکچائیں گے تاوقتیکہ کے 'یوروزون' کے ممالک اس بارے میں کوئی حکمتِ عملی تیار نہیں کرلیتے۔

ریفرنڈم کے ابتدائی نتائج سامنے آنے کے بعد یونان کی حکومت کے کئی وزرا نے یورو زون کے رکن ملکوں سے یونان کو قرض کی فراہمی کے معاملے پر مذاکرات دوبارہ شروع کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔

لیکن بظاہر لگتا ہے کہ یورپی یونین اور اس کے رکن ممالک فوری طور پر ایسا کرنے کے موڈ میں نہیں اور انہیں اپنا جوابی لائحہ عمل طے کرنے میں مزید دو سے تین دن لگیں گے۔

جرمنی کی چانسلر اینگلا مرخیل پیر کی شام پیرس میں فرانس کے صدر فرانسس اولاں سے ملاقات کریں گی جس میں 'یورو زون' اور یورپی یونین کے دونوں بڑے اور اہم ممالک کے سربراہان یونان کے بحران کے بارے میں تبادلہ خیال کریں گے۔

'یورپی یونین' کا منتظم ادارہ یورپین کمیشن کا اجلاس بھی منگل کو فرانس کے شہر اسٹراس برگ میں ہوگا جس کے بعد کمیشن یورپی پارلیمان کو یونان کی صورتِ حال سے متعلق رپورٹ اور اپنی سفارشات پیش کرے گا۔

معاشی بحران کا شکار یونان گزشتہ پانچ برسوں سے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف)اور یورپین یونین سے انتہائی سخت شرائط پر قرض لے رہا ہے جس پر یونان کے عوام اور نئی حکومت سخت برہم ہیں۔

وزیرِاعظم سیپراس کا موقف ہے کہ یورپی اتحادیوں کی جانب سے یونان کے دیے جانے والے بیل آؤٹ پیکج کی سخت شرائط نے ملکی معیشت کو اپنے قدموں پر کھڑا ہونے میں مدد دینے کے بجائے معاشی بحران مزید شدید کردیا ہے۔

یونان میں بے روزگاری کی شرح 50 فی صد تک جاپہنچی ہے جس کا مطلب ہے کہ کام کاج کے قابل ہر دو یونانی شہریوں میں سے ایک روزگار سے محروم ہے۔

یونان کو قرض دینے والے ملکوں اور اداروں کا اصرار ہے کہ وہ محصولات میں اضافے اور سرکاری اخراجات، خصوصاً پینشنوں میں مزید کٹوتیاں کرے۔

یونان کا شمار قرض کے بوجھ تلے دبے دنیا کے سرِ فہرست ملکوں میں ہوتا ہے جو صرف گزشتہ چند برسوں کے دوران اربوں یورو کے کئی بیل آؤٹ پیکج وصول کرچکا ہے۔

گزشتہ ہفتے یونان کے ایک بڑے قرض دہندہ 'آئی ایم ایف' نے اپنی ایک رپورٹ میں کہا تھا کہ یونان کو دیوالیہ ہونے سے بچانے کے لیے اسے مزید 50 ارب یورو کے فنڈز فراہم کرنا ہوں گے۔

XS
SM
MD
LG