رسائی کے لنکس

’امدادی تنظیموں کو پیسہ بٹورنے اور اپنی تشہیر کی زیادہ فکر لگی ہوئی ہے‘


سرکردہ طبی جریدے ’دِی لانس’ نے اہم امدادی تنظیموں کی طرف سے ہیٹی میں جاری امدادی کام پر نکتہ چینی کی ہے۔

برطانوی جریدے کا کہنا ہے کہ امدادی کام کرنے والوں کو پیسے بٹورنے اور میڈیا میں ملنے والی تشہیر کی لَت پڑ گئی ہے۔ جریدے کا کہنا ہے کہ امداد میں شامل اداروں کے ذاتی مفاد کے باعث ہیٹی میں کیے جانے والے امدادی کام میں افراتفری کا عنصر اُبھر کر سامنے آگیا ہے۔

رسالے نے اپنے اداریے میں بڑی امدادی ایجنسیوں پر زلزلہ زدگان کی جگہ اپنی ضروریات کو اولیت دینے کا الزام عائد کیا ہے۔

رونا میک ڈونالڈ ‘دِی لانس’ کی سینئر ایڈیٹر ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ اداروں کے خود مطلبی طرزِ عمل کے باعث ہیٹی میں لوگ بے موت مر رہے ہیں۔

اُن کے بقول، یہ امدادی ادارے اِس طریقے سےکام انجام دے رہے ہیں جیسے کو ئی شراکتی ادارے ہوں۔ مثال دیتے ہوئے، جریدے نے کہا کہ کارپوریشنیں پیسے بنانے کی فکر میں سرگرداں رہتی ہیں، اِسی طرز پر بڑے خیراتی ادارے خبط کا شکار ہیں۔ مطلب یہ ہوا کہ اُن کا خاص مقصد محض پیسے اکٹھے کرنا رہ گیا ہے۔

وہ کہتی ہیں کہ بڑے امدادی گروہ ابلاغِ عامہ میں جگہ پانے اور تشہیر کے شوق میں مبتلا ہیں اورمیدان میں مقابلہ زوروں پر ہے۔ مراد یہ کہ بہتر کام اور بہتر نتائج برآمد کرنے کی غرض سے امدادی گروہ مل کر کام نہیں کر رہے۔

مک ڈونالڈ کے الفاظ میں: ‘نچلی سطح پر کئی ایک چھوٹے خیراتی ادارے سرگرمِ عمل ہیں، لیکن بڑے خیراتی ادارے خود کو نمایاں کرنے کو ترجیح دے رہے ہیں۔ وہ اجارہ داری کی فکر میں مبتلا ہیں، بجائے اِس بات کے کہ چھوٹے خیراتی اداروں سے رابطےاوراشتراک کی مدد سے بہتر نتائج برآمد کریں۔’

دوسری طرف ‘ہنگامی حادثات کمیٹی’ ہے جو کہ برطانیہ کی13امدادی تنظیموں کا اتحاد ہے ، جس میں اوکسفام اور برطانوی ریڈ کراس شامل ہیں۔ ‘دِی لانس’ کے اداریے کے برعکس اتحاد کا کہنا ہے کہ وہ کیے جانے والے امدادی کام پر جریدے کی طرف سے کی گئی عکاسی سے متفق نہیں۔

کمیٹی کا کہنا ہے کہ ہیٹی کے بحران سے بہتر طور پر نبرد آزما ہونے کے لیے برطانیہ کے امدادی گروپوں نے ایک بڑا اتحاد تشکیل دیا ہے۔

اینڈریو ہوگ ‘کرسچن ایڈ’ نامی انسانی امدادی تنظیم سے وابستہ ہیں جو برطانیہ میں قائم ہے۔ اُنھوں نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ نظریہ خیرِ خلق ابھی صنعت نہیں بنا۔

اُن کے الفاظ میں: ‘بد قسمتی سےحالیہ برسوں میں کئی ایک قدرتی آفات آئیں، جس کے باعث تعمیر میں کام آنے والی مہارت کی استعدادی سطح میں واضح فرق پڑا ہے۔

اُن کا کہنا ہے کہ ہیٹی میں پائی جانے والی افراتفری کا سبب زلزلے کے بعد ملک میں ضروری بنیادی ڈھانچے کی عدم موجودگی ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ جو لوگ زلزلے میں زندہ بچ گئے ہیں اُن کے لیے آسانیاں پیدا کرنے کے لیے صدقِ دل سے کام کر دکھانے کے عزم میں قطعاً کوئی کمی واقع نہیں ہوئی۔ البتہ بنیادی مشکلات کا سامنا ضرور ہے جنھیں حل کرنا باقی ہے۔

ڈیزاسٹر ایمرجنسی ریلیف ایجنسی کا کہنا ہے کہ اُس نے ہیٹی میں ہنگامی امدادی کام کے لیے اب تک سات کروڑ ڈالر اکٹھے کیے ہیں۔

XS
SM
MD
LG