رسائی کے لنکس

ہزارہ ڈویژن میں شٹر ڈاؤن ہڑتال، ہلاکتوں پر سوگ کا اعلان


فائل فوٹو
فائل فوٹو

صوبہ سرحد کانام خیبر پختون خواہ رکھنے کے خلاف ایبٹ آباد میں ایک روز قبل ہونے والے پرتشد د مظاہروں میں ہلاک ہونے والے کم از کم سات افراد کی نمازہ جنازہ ادا کردی گئی ۔ ان ہلاکتوں کے خلاف منگل کو ایبٹ آباد سمیت ہزارہ ڈویژن کے مختلف اضلاع میں شٹر ڈاؤن ہڑتال کی گئی۔ مقامی انتظامیہ کے مطابق مظاہرین نے منگل کو بھی پولیس حکام کے دفاتر اور سرکاری املاک کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی تاہم پولیس نے آنسو گیس کا استعما ل کرتے ہوئے مظاہر ے میں شامل افراد کو منتشر کردیا۔ ہسپتال ذرائع کے مطابق ان پرتشدد مظاہروں میں پولیس اہلکاروں اور مظاہرین سمیتاب تک 100 سے زائد افراد زخمی ہو گئے تھے۔

صوبہ سرحد پولیس کے سربراہ بھی ایبٹ آباد میں موجود ہیں اور اُن کا کہنا ہے کہ پولیس کو کم از کم طاقت کے استعمال کا حکم دیا گیا ہے اور گذشتہ روز بھی صرف اُسی صورت میں فائرنگ کی گئی جب براہ راست قانون نافذ کرنے والے اداروں کو نشانہ بنایا گیا۔ صوبائی حکومت پہلے ہی اس واقعہ کی عدالتی تحقیقات کا حکم دے چکی ہے۔

دریں اثنا اٹھارویں آئینی ترمیم جس میں صوبہ سرحد کا نام تبدیل کر کے خیبر پختون خواہ رکھنے کی شق شامل ہے اُس پر سینٹ میں بحث منگل کو بھی جاری رہی ۔ حزب اختلاف کی جماعت مسلم لیگ (ق) کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ وہ صوبے کے نام کی تبدیلی شق کی مخالفت کریں گے اور اس سلسلے میں وہ دیگر جماعتوں سے بھی رابطے میں ہیں۔

صوبہ سرحد میں برسراقتدار عوامی نیشنل پارٹی کے سینیئر رہنما سینیٹر حاجی عدیل نے وائس آف امریکہ سے خصوصی گفتگو میں کہا کہ مجوزہ آئینی اصلاحات کی تیاری میں تمام سیاسی جماعتوں کے نمائندے شامل تھے اور اُنھوں نے صوبہ سرحد کے نام کی تبدیلی سمیت دیگر 100 سے زائد شقوں پر اتفاق کرتے ہوئے اٹھارویں ترمیم کے مسودے پر دستخط کیے تھے ۔ حاجی عدیل نے کسی جماعت کا نام لیے بغیر کہا کہ سیاسی مفادات کے باعث اب وہ اپنے موقف سے ہٹ گئے ہیں۔

تاہم مسلم لیگ (ق) کے علاوہ حزب اختلاف کی جماعت مسلم لیگ (ن) کے رہنماؤں کا بھی کہنا ہے کہ حکمران اتحاد کوہزارہ ڈویژن کے عوام کی آراء کا احترام کرتے ہوئے صوبے کے نام کی تبدیلی کے فیصلے پر نظر ثانی کرنی چاہیئے۔ لیکن حاجی عدیل کا کہنا ہے کہ چند ہزار لوگ اپنے مفادات کے لیے طویل مشاور ت اور جدوجہد کے بعد آئینی اصلاحات پر مبنی اٹھارویں ترمیم کے تاریخی مسودے کو آئین کا حصہ بننے سے روکنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

آئین کا حصہ بننے کے لیے قومی اسمبلی سے دوتہائی سے زائد اراکین کی حمایت سے منظور ہونے والی اٹھارویں آئینی ترمیم کی سینٹ سے بھی دو تہائی اکثریت سے منظور ی ضروری ہے ۔

XS
SM
MD
LG