رسائی کے لنکس

گلبدین حکمت یار کے نمائندہ وفد کی صدر کرزئی سے ملاقات


گلبدین حکمت یار کے نمائندہ وفد کی صدر کرزئی سے ملاقات
گلبدین حکمت یار کے نمائندہ وفد کی صدر کرزئی سے ملاقات

امریکہ کو مطلوب سابق افغان وزیر اعظم گلبدین حکمت یار کی جماعت حزب اسلامی کے ایک وفد نے کابل میں صدر حامد کرزئی سے ملاقات کی ہے جوسیاسی مفاہمت کو فروغ دینے کی کوششوں کے سلسلے میں افغان صدر کا کسی شورش پسند تنظیم کے ساتھ پہلا براہ راست رابطہ ہے ۔

کابل میں صدارتی ترجمان نے اس ملاقات کی تصدیق کی ہے لیکن اس کی مزید تفصیلات نہیں بتائیں۔

حزب اسلامی کے ایک ترجمان ہارون زرغون نے وائس آف امریکہ کو بتایا ہے کہ اُن کا وفد اپنے ساتھ ایک 15نکاتی منصوبہ بھی لے کر افغانستان گیا ہے جس میں بنیادی نکتہ اس سال جولائی سے تمام غیر ملکی افواج کے انخلاء کے عمل کا آغاز ہے جسے چھ مہینوں میں مکمل ہونا چاہیئے۔

اس کے علاوہ انھوں نے کہا کہ موجودہ حکومت اور پارلیمان کو چھ ماہ تک اپنا کام جاری رکھنا چاہیئے جس کے بعد ایک عبوری انتظامیہ تشکیل دی جائے جس کی نگرانی میں مارچ 2011 ء میں صدارتی اور پارلیمانی انتخاب کرا ئے جائیں۔ ترجمان زرغون کے بقول حزب اسلامی ان شرائط میں بات چیت کے ذریعے رد وبدل کے لیے تیار ہے۔ انھوں نے کہا کہ ان کا وفد اس منصوبے پر امریکی حکا م اور نیٹوکے نمائندوں کے ساتھ بھی اس 15 نکاتی فارمولے پر بات کر ےگا۔

لیکن کابل میں امریکی سفارت خانے کے ایک ترجمان نے کہا ہے کہ امریکہ کا حزب اسلامی کے وفد سے ملاقات کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔ تاہم بقول ترجمان کے امریکہ افغان حکومت کی اُس پالیسی کی حمایت کرتا ہے جس کا مقصد ان عسکریت پسندوں کے ساتھ مفاہمت کو فروغ دینا ہے جو تشدد کی راہ چھوڑ کر افغان آئین کے مطابق زندگی گزارنے کے لیے تیار ہوں اور جن کا القاعدہ یا کسی دوسری دہشت گرد تنظیموں کے ساتھ تعلق نہ ہو۔

حزب اسلامی کے ذرائع نے وائس آف امریکہ کو بتایا ہے کہ اُن کے پانچ رکنی وفد میں داؤد عابدی، انجینئر قطب الدین ہلال، حکمت یار کے داماد ڈاکٹر غیر ت باہیر اور استاد قریب الرحمن سعید شامل ہیں۔ ان ذرائع کا کہنا ہے کہ حزب اسلامی صدر کرزئی کی سیاسی مفاہمت کی کوششوں کی حمایت کرتی ہے اور تنظیم کے رہنماؤں کی” خواہش ہے کہ افغانستان میں امن قائم ہو جائے کیونکہ بہت زیادہ تباہی ہوگئی ہے“۔

حزب اسلامی کے ذرائع نے وی او اے کو بتایا ہے کہ پیر کی شب حزب اسلامی کے وفد اور صدر کرزئی کے درمیان ایک اور ملاقات بھی متوقع ہے۔

حزب اسلامی کے وفد میں شامل داؤد عابدی طویل عرصے سے امریکہ میں مقیم ہیں اور ذرائع کا کہنا ہے کہ افغان اور امریکی حکام کے ساتھ حالیہ رابطوں میں وہ پل کا کردار ادا کرر ہے ہیں۔ استاد قریب الرحمن حزب اسلامی کے میڈیا ڈائریکٹر رہ چکے ہیں اور وہ ان دنوں ناروے میں رہائش پذیر ہیں۔

خیال رہے کہ 1990 ء کی دہائی کے وسط میں افغانستان میں جاری خانہ جنگی کے دوران کابل کے جنوب میں چہارسیاب کا علاقہ گلبدین حکمت یار کا مضبوط گڑھ تھا۔ 1996 ء میں وہ مختصر مدت کے لیے پاکستان منتقل ہوگئے لیکن اسلام آباد حکومت کی طالبان کی حمایت کی پالیسی کے باعث حکمت یار نے شمالی اتحاد کے ساتھ رابطے قائم کر لیے اور کچھ عرصہ شمالی افغانستان کے سرحدی شہر مزار شریف میں گزارنے کے بعد وہ ایران چلے گئے۔

گلبدین حکمت یار(فائل فوٹو)
گلبدین حکمت یار(فائل فوٹو)

ستمبر 2001 ء میں امریکہ پر دہشت گرد حملوں اور جواب میں امریکہ کی قیادت میں بین الاقوامی فوج کی افغانستان میں طالبان کے خلاف کارروائی کے آغاز کے بعد حکمت یار نے وطن واپس آکر طالبان باغیوں کے ساتھ مل کر غیر ملکی افواج کے خلاف ”جہاد “ کا اعلان کر دیا۔

افغانستان میں امریکی افواج پر حملے کرنے کے جرم میں گلبدین حکمت یار کا نام امریکہ کو انتہائی مطلوب افراد کی فہرست میں شامل ہے۔ اب تک حکمت یار کا بدستور یہ مئوقف رہا ہے کہ وہ افغان حکام سے امن بات چیت کے لیے تیار ہیں بشرطیکہ امریکہ افغانستان سے انخلاء کی تاریخ کا اعلان کرے۔

XS
SM
MD
LG