رسائی کے لنکس

ایڈز کے مرض سے نجات کی کوششوں میں پیش رفت


ایڈز کے مرض سے نجات کی کوششوں میں پیش رفت
ایڈز کے مرض سے نجات کی کوششوں میں پیش رفت

یکم دسمبر کو دنیا بھر میں ایڈز کا عالمی دن منایا جا رہا ہے ۔ دنیا کے کچھ علاقوں میں ایچ آئی وی انفیکشن کی شرح میں اضافہ ہو رہا ہے، اور بعض دوسرے علاقوں میں اس کی شرح میں کوئی کمی نہیں آئی ہے۔ اس کے ساتھ ہی، اس وبا سے بچاؤ کے زیادہ موئثر طریقوں کی دریافت اور ایچ آئی وی کی ویکسین کی تیاری میں پیش رفت سے یہ امید پیدا ہو چلی ہے کہ دنیا کو ایڈز کے مرض سے نجات مل جائے گی ۔

امریکی وزیرِ خارجہ ہلری کلنٹن نے کہا ہے کہ ایک ایسی نسل کا تصور جسے ایڈز سے نجات مل چکی ہو، غیر حقیقی سی بات لگتی ہے، لیکن یہ بالکل ممکن ہے ۔

واشنگٹن کے ایک اجتماع میں، انھوں نے دنیا بھر کے صحت کے ماہرین، سائنسدانوں اور سرگرم کارکنوں پر زور دیا کہ وہ اس مقصد کے حصول کے لیے اپنی کوششیں تیز تر کردیں۔

یہ بڑا سنگین مسئلہ ہے ۔ ایڈز کی بیماری سے ، جس کا تعلق ہیومن امیونو۔ ڈیفشنسی وائرس یا HIV سے ہے، گذشتہ تین عشروں میں تین کروڑ افراد ہلاک ہو چکے ہیں ۔ دنیا بھر میں مزید تین کروڑ چالیس لاکھ افراد، ایچ آئی وی انفیکشن کے ساتھ زندہ ہیں۔

اس وبا پر قابو پانے کی کوششیں کرنے والے سائنسداں کہتے ہیں کہ ایڈز کے خلاف جنگ مشکل ہے کیوں کہ یہ بیماری جس وائرس سے پھیلتی ہے وہ بڑا پیچیدہ اور سخت جان ہوتا ہے ۔

انٹرنیشنل ایڈز ویکسین انیشی سرکاری اور پرائیویٹ شراکت داری سے چلنے والا پروگرام ہے ۔ اس کے نائب صدر رِک کنگ کہتے ہیں’’ہوتا یہ ہے کہ ایک بار آپ کو ایچ آئی وی کا انفیکشن ہو جائے، تو یہ وائرس آپ کے جینیاتی مادے کا حصہ بن جاتا ہے۔ اس وائرس کی خاصیت یہ ہے کہ یہ مستقل طور پر آپ کی جینیاتی ساخت سے جُڑ جاتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اس سے چھٹکارا پانا بہت مشکل ہے۔‘‘

رِک کنگ کہتے ہیں کہ ایچ آئی وی کے خلاف ایک مؤثر ویکسین پانچ برسوں میں تیار ہو سکتی ہے، اگرچہ ابھی بہت رکاوٹیں عبور کرنا باقی ہیں۔’’کروڑوں وائرس بیک وقت گردش کر رہے ہوتے ہیں اور وہ ایک دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں ۔ یہ بات ضروری ہے کہ ویکسین ان تمام مختلف قسم کے وائرسوں کے خلاف موئثر ہو۔ ہمیں ایسی ویکسین تیار کرنی ہے جو ہزاروں اقسام کے وائرس کو بلاک کر دے۔‘‘

اقوام ِ متحدہ کی ایک حالیہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بچاؤ کے بہتر طریقوں اور دواؤں کے ذریعے علاج کے پروگراموں کی بدولت، ایڈز سے ہونے والی اموات میں ، اور انفیکشن کی عالمی شرح میں کمی آئی ہے ۔ لیکن اقوامِ متحدہ کے ایڈز پروگرام کے ایگزیکیوٹو ڈائریکٹر، مائیکل سڈیبی کہتے ہیں کہ اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ بعض علاقوں میں اس وبا کی شدت میں اضافہ ہو رہا ہے۔

’’میرے خیال میں مشرقی یورپ اور وسط ایشیا میں یہ مسئلہ سب سے زیادہ سنگین ہے۔ رپورٹ کے مطابق، دس برسوں میں، ان علاقوں میں ایچ آئی وی انفیکشن کے نئے کیسوں میں 250 فیصد کا اضافہ ہوا ہے ۔‘‘

یوایس نیشنل انسٹیٹیوٹ آف الرجی اینڈ انفیکشیس ڈزیزز کے ڈائریکٹر ڈاکٹر انتھونی فاؤسی نے کہا ہے کہ اس صورتِ حال کی وحہ بڑی سادہ ہے ۔ وہ ہے ایسا انسانی طرز عمل جو خطرات سے پُر ہوتا ہے ۔

’’انجیکشن کے ذریعے منشیات کا استعمال، منشیات حاصل کرنے کے لیے جسم فروشی، یہ وہ چیزیں ہیں جن سے ایچ آئی وی کا پھیلاؤ انتہائی آسان ہو جاتا ہے۔ یہ کوئی ایسی چیز نہیں جو تمام علاقوں میں ایک جیسی رفتار سے پھیلے۔ کچھ ملکوں میں ایچ آئی وی کی شرح اونچی ہے اور کچھ میں کم۔‘‘

اقوامِ متحدہ کے ایڈز پروگرام کے مائیکل سڈیبی کہتے ہیں کہ جنوبی افریقہ ایک ایسے ملک کی بہت اچھی مثال ہے جو ایڈز کی وبا پرقابو پانے کی کوشش کر رہا ہے۔’’انھوں نے ایک کروڑ چالیس لاکھ سے زیادہ لوگوں کو ٹیسٹ کیا، دواؤں کی قیمت 52 فیصد کم کر دی، اور زیرِ علاج لوگوں کی تعداد میں اضافہ کر دیا ۔‘‘

اگرچہ صحت عامہ کے ماہرین نے ان کوششوں کی تعریف کی ہے جو ایچ آئی وی/ایڈز کو کنٹرول کرنے کے لیے کی گئی ہیں، لیکن وہ کہتے ہیں کہ اس وبا کو ختم کرنے اور ایڈز کی لعنت سے پاک نسل کا مقصد حاصل کرنے کے لیے، عطیات دینے والے ملکوں کی طرف سے زیادہ مدد، اور میزبان ملکوں کی طرف سے وسائل کے بہتر استعمال کی ضرورت ہوگی۔

XS
SM
MD
LG