رسائی کے لنکس

امریکی افواج کی واپسی کے فیصلے پر نظر ثانی کی ضرورت: مبصرین


امریکی افواج کی واپسی کے فیصلے پر نظر ثانی کی ضرورت: مبصرین
امریکی افواج کی واپسی کے فیصلے پر نظر ثانی کی ضرورت: مبصرین

افغانستان میں اتحادی افواج طالبان عسکریت پسندوں کو ان کے زیر قبضہ علاقوں سے پیچھے دھکیلنے اور کابل میں حکومت کی رٹ بحال کرنے کے لیے ایک بڑی کارروائی میں مصروف ہیں۔ اسی حکمت عملی کے تحت افغان صدرحامد کرزئی مصالحت پر آمادہ طالبان گروپوں سے مذاکرات کررہے ہیں۔دسمبر میں صدر اوباما افغانستان کے لیے اپنی انتظامیہ کی جنگی حکمتِ عملی کا جائزہ لیں گے۔ امریکہ اور پاکستان میں بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ صدر اوباما کو اگلے سال جولائی سےامریکی فوجوں کی واپسی کے فیصلے پرنظر ثانی کرنی چاہیے اور اس سلسلے میں پاکستان کو اعتماد میں لینا چاہیے۔

بش دور کے سابق نائب وزیرِ خارجہ رچرڈ آرمٹیج کہتے ہیں کہ پاکستان کو امدادی رقوم دینے کے بجائے وہاں کی معیشت کو مضبوط کرنے پر توجہ دینی چاہیے۔

ان کا کہنا ہے کہ میرے خیال میں ہم ان کے لیے جو زیادہ بہتر کام کر سکتے ہیں وہ ہے ان کی ٹیکسٹائل صنعت کو منڈیاں فراہم کرنا جو ان کی سب سے بڑی انڈسٹری ہے۔ ہم یہ آسانی سے کر سکتے ہیں اور اس سے ہماری ٹیکسٹائل صنعت کو کوئی نقصان نہیں ہو گا۔

صدر اوباما کے ناقدین کہتے ہیں کہ انہیں جولائی 2011ء میں فوجوں کی واپسی کے آغاز کی تاریخ پر نظر ثانی کرنی چاہیے۔افغانستان اور پاکستان کے لیے صدر اوباما کے خصوصی نمائندے رچرڈ ہال بروک نے اسلام آباد میں وائس آف امریکہ کو بتایا کہ امریکہ افغانستان کی سیکیورٹی افغان آرمی اور پولیس کے حوالے کرنا چاہتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ امریکہ اور اس کے اتحادی افغانستان کو چھوڑ کر نہیں جائیں گے۔ ہم 1989ءکے واقعات کو نہیں دہرائیں گے۔ یہ نکل جانے کی حکمتِ عملی نہیں بلکہ ذمہ داری منتقل کرنے کی حکمتِ عملی ہے۔

اس حکمتِ عملی کے مطابق اگلے چار سال کے دوران افغانستان کی سیکیورٹی کاا نتظام افغان فورسز کے حوالے کر دیا جائے گا۔ مگر افغان حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکرات سے نہ صرف افغان عوام بلکہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں شامل اتحادی ممالک بھی ابہام کا شکار ہیں۔

رچرڈ آرمٹیج کا کہنا ہے کہ جب ہم افغانستان گئے ۔ تو ہمیں لگا کہ مفاہمت کافی بڑا لفظ ہے۔ یعنی طالبان کو اپنے ساتھ ملانے کا کیا مطلب ہے۔ اگر ایک طرف طالبان مرکزی حکومت کے ساتھ مل جاتے ہیں۔ تو اس سے خواتین کے حقوق کی تنظیموں، این جی اوز اور اقلیتی سیاستدانوں کو کچھ اعتماد ملے گا۔جبکہ دوسری طرف اگر مرکزی حکومت طالبان کے ساتھ ملتی ہے۔ تو اس کا مطلب مختلف ہے۔

امریکی انتظامیہ کا کہناہے کہ وہ طالبان کے ساتھ مذاکرات میں کسی بھی سطح پر ملوث نہیں ہے جبکہ مبصرین کہتے ہیں کہ امریکہ کو اس سلسلے کا حصہ ہونا چاہیے کیونکہ مذاکرات کرنے والے گروپ کو صدر کرزئی نے چنا ہے جو ان کی شرائط پر مذاکرات کر رہا ہے۔

خصوصی امریکی نمائندے ہالبروک کا کہنا ہے کہ اگر طالبان مذاکرات کے لیے صدر کرزئی کو ہٹانے کی شرط رکھیں گے۔ تو ہم یہ نہیں کریں گے۔ عالمی برادری بشمول امریکہ اور پاکستان صدر حامد کرزائی کی حکومت کی حمایت کرتے ہیں۔

امریکی انتظامیہ کا یہ موقف ہے کہ امریکہ افغانوں کی طرف سے امن کے لیے شروع کیے جانے والے کسی بھی قدم کی مخالفت نہیں کرگا۔

صدر اوباما رواں ہفتے کے دوران پرتگال کے دارلحکومت لزبن میں صدر کرزئی اور نیٹو اتحاد کے راہنماوں سے ملیں گے ۔ امکان ہے کہ وہ صدر کرزئی سے افغان نیشنل آرمی اور پولیس کی ٹرینگ اور طالبان کے ساتھ مذاکرات کے موضوعات پر بات کریں گے۔

XS
SM
MD
LG