رسائی کے لنکس

افغانستان میں فوج کی تعیناتی پر ہالینڈ کی مشکلات


اس سوال پر کہ افغانستان میں فوجی رکھے جائیں یا نہیں، ڈچ حکومت کو پارلیمینٹ میں شکست ہو گئی ہے۔ جن دوسرے ملکوں کی فوجیں نیٹو کے تحت افغانستان میں موجود ہیں، ان پر اس فیصلے کا کیا اثر پڑے گا۔

تقریباً دو ہزار ڈچ فوجی افغانستان کے ارضگان صوبے میں 2006ء سے موجود ہیں۔ وہ نیٹو کی قیادت میں کام کرنے والی انٹرنیشنل سکیورٹی اسسٹنس فورس کا حصہ ہیں۔

تجزیہ کار کہتے ہیں کہ افغانستان میں نیٹو کے تین مقاصد ہیں۔ پہلا مقصد تو ملک کی تعمیر نو اور اس کے استحکام میں افغان حکومت کی مدد کرنا ہے ۔ دوسرا مقصد افغان فوج اور پولیس کو تربیت دینا ہے اور تیسرا مقصد جنوبی افغانستان میں باغیوں کا پتہ چلانا اور ان کا خاتمہ کرنا ہے ۔ جنوبی افغانستان طالبان کا گڑھ ہے جنھیں امریکی قیادت میں اتحادی فوجوں نے 2001ء میں اقتدار سے محروم کر دیا تھا۔

دو ہزار ڈچ فوجیوں میں سے تقریباً ڈیڑھ ہزار امریکی اور برطانوی فوجیوں کے ساتھ مل کر باغیوں اور طالبان سے جنگ کر رہے ہیں۔ بقیہ پانچ سو ڈچ فوجی تعمیر نو کے سویلین کام انجام دے رہے ہیں اور افغان فوج اور پولیس کو تربیت دے رہے ہیں۔ لیکن اب ڈچ فوجی اگست میں اپنے ملک واپس جانا شروع ہو جائیں گے کیوں کہ گذشتہ مہینے اپنی افغان پالیسی کے سوال پر ڈچ حکومت ختم ہوگئی۔ مخلوط حکومت کی ایک بڑی رکن، لیبر پارٹی، یہ کہتے ہوئے حکومت سے الگ ہو گئی کہ وہ افغانستان میں فوجوں کی تعیناتی میں توسیع کی حمایت نہیں کرے گی۔ واشنگٹن میں ایک حالیہ نیوز کانفرنس میں نیٹو کے سیکرٹری جنرل اینڈرز فوگ رسوسن نے یہ تاثر نہیں دیا کہ انہیں اس فیصلے پر کوئی خاص تشویش ہے۔ انھوں نے کہاکہ ’’میں اسے خالصتاً داخلی مسئلہ سمجھتا ہوں، اور میں داخلی سیاسی معاملے میں دخل دے کر صورت حال کو اور زیادہ پیچیدہ بنانا نہیں چاہتا۔ میرے خیال میں ہالینڈ میں جو کچھ ہوا ہے، اس کا دوسرے ملکوں پر کوئی اثر نہیں پڑ ے گا‘‘۔

لیکن کونسل آن فارن ریلیشنز کے چارلز کپچان کہتے ہیں کہ یہ فیصلہ بڑ ے بُرے وقت میں کیا گیا ہے، خاص طور سے اس لیئے کہ آج کل نیٹو ، جنوبی ہلمند صوبے میں فوجی کارروائی میں مصروف ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’اس قسم کے فیصلے کے لیئے یہ بہت برا وقت ہے۔ صدر اوباما جنگ میں حصہ لینے کے لیئے مزید یورپی فوجی حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور انہیں کسی حد تک کامیابی بھی ہوئی ہے۔ انہیں تیس ہزار امریکی فوجی اور تقریباً دس ہزار فوجی یورپ سے مل گئے ۔ اس تازہ واقعے سے بڑی بُری روایت قائم ہوئی ہے کیوں کہ اس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ اتحاد میں شامل ملک، ایک ایک کر کے الگ ہونا شروع ہو جائیں گے‘‘۔

ارضگان میں آسٹریلیا کے بھی تقریباً ڈیڑھ ہزار فوجی ہیں۔ آسٹریلیا نے کہا ہے کہ اس کے فوجی ڈچ فوجیوں کی ذمہ داریاں نہیں سنبھالیں گے۔ سوال یہ ہے کہ اگست میں ڈچ فوجیوں کے رخصت ہونے کے بعد، کیا دوسرے ملک بھی اسی طرح نہیں سوچنے لگیں گے ۔ ا وہایئو ویسلین یونیورسٹی کے شان کے کہتےہیں کہ ’’اگر آپ نیٹو کے عہدے داروں کی بات سنیں، تو وہ کہیں گے کہ ایسا نہیں ہو گا۔ لیکن فوجیں بھیجنے کے فیصلے سیاست داں کرتے ہیں جنہیں رائے عامہ کو سامنے رکھنا پڑتا ہے ۔ اور یورپ میں خاص طور سے، اور کینیڈا میں بھی، کئی برسوں سے عام لوگوں کی رائے اس مشن کے خلاف ہوتی جا رہی ہے۔ حکومت کے اعلیٰ عہدے دار یہ کوشش کر رہے ہیں کہ نیٹو کے ساتھ کیئے ہوئے وعدے کو نبھایا جائے ۔ لیکن ان کے لیئے یہ کام روز بروز مشکل ہوتا جا رہا ہے‘‘ ۔

توقع ہے کہ کینیڈا اپنے تین ہزار فوجیوں کو 2011ء کے وسط میں واپس بلانا شروع کر دے گا۔لندن یونیورسٹی کے مائیکل ولیمز کہتے ہیں کہ جنوبی افغانستان میں، قندھار کے علاقے میں، کینیڈا کے فوجی بہت سرگرم رہے ہیں۔ ان کے مطابق ’’انھوں نے انتہائی مشکل فوجی آپریشنز میں حصہ لیا ہے اور دوسری عالمی جنگ کے بعد، یہ پہلا موقع ہے کہ اتنی مشکل جنگیں لڑی ہیں۔ ان کی کارکردگی شاندار رہی ہے۔ انھوں نے ترقیاتی سرگرمیوں میں بھی حصہ لیا ہے ۔

لیکن کینیڈا میں داخلی طور پر، عام لوگ اس جنگ کے حمایت نہیں کرتے اور حکومت کو کینیڈا کے رول کے بارے میں ، حزب اختلاف کی طرف سے بعض مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہے ۔چند برس پہلے ایک تجزیاتی مطالعہ کیا گیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ اگر دوسرے اتحادی ممالک زیادہ سرگرمی سے حصہ نہیں لیتے تو کینیڈا کے فوجیوں کو واپس آ جانا چاہیئے ۔ میرے خیال میں، ڈچ فوجیوں کی واپسی سے، کینیڈا میں اس موقف کو تقویت ملے گی کہ 2011ء میں اس کے فوجیوں کوبھی واپس آ جانا چاہیئے‘‘ ۔

بہت سے تجزیہ کار کہتے ہیں کہ ایسا تو نہیں ہوگا کہ بہت سے ملک عجلت میں واپس آنے کا فیصلہ کریں لیکن ڈچ تجربے کی روشنی میں بہت سے حکومتیں، اپنی فوجوں کی واپسی کی حکمت عملی کا جائزہ لینا شروع کر دیں گی۔

XS
SM
MD
LG