رسائی کے لنکس

’قانون سازی قتل کے واقعات کی روک تھام میں مدد دے گی‘


قانون سازی قتل کے واقعات کی روک تھام میں مدد دے گی: تجزیہ کار
please wait

No media source currently available

0:00 0:03:31 0:00

غیرت کے نام پر قتل پر پاکستانی پارلیمان میں منظور کی جانے والی قانون سازی پر رد عمل ظاہر کرتے ہوئے، خواتین کے حقوق کے لئے سرگرم کارکنوں کا کہنا ہے کہ ’’قتل میں کوئی غیرت نہیں، اس لئے اس لفظ کا استعمال بھی تبدیل ہونا چاہیئے‘‘

ملک میں پارلیمان کی جانب سے غیرت کے نام پر قتل اور جنسی زیادتی کے خلاف مجوزہ قوانین کی متفقہ منظوری پر پاکستان میں انسانی حقوق کی تنظیمیں اس امید کا اظہار کر رہی ہیں کہ نئے قوانین سے ایسے واقعات کی روک تھام میں مدد ملے گی۔

ان نئے قوانین کے تحت ایسے جرائم کا نشانہ بننے والوں کے ورثا کا مجرم کو معافی دینے کا اختیار ختم کر دیا گیا ہے۔

محلے کے بچوں نے 16 سالا سمیرہ کو زخموں کی تاب نہ لا تے ہوئے اپنے گھر کی دہلیز پر جان دیتے ہوا دیکھا۔ اس کا بھائی جس نے سمیرہ کو کسی مرد کے ساتھ بات کرتے ہوئے دیکھنے پر چاقو سے زخمی کر دیا تھا، ہاتھ میں سیل فون تھامے اس کے قریب ہی بیٹھا رہا۔

ملک کے ایک اور حصے میں سوشل میڈیا پر شہرت پانے والی قندیل بلوچ کے بھائی نے نازیبا وڈیوز کی وجہ سے اس کو گلا دبا کر ہلاک کر دیا۔

یہ دونوں لڑکیاں غیرت کے نام پر قتل ہوئیں۔

پاکستان کے قدامت پسند معاشرے میں خواتین اور مردوں کے درمیان روابط کی سختی سے نگرانی کی جاتی ہے اور خاص طور پر خواتین کی جانب سے معاشرے میں وضع سماجی اقدار سے انحراف کو شرمناک سجھا جاتا ہے، جس کی سزا موت بھی ہو سکتی ہے۔

ملک بھر میں ہر سال سینکڑوں خواتین اپنے خاندان کے افراد کے ہاتھوں قتل ہوتی ہیں، جسے عام طور پر غیرت کے نام پر قتل کہا جاتا ہے۔

انسانی حقوق کے سرگرم کارکن اکثر مروجہ قانون میں پائے جانے والے اس سقم پر افسوس کرتے رہے ہیں، جس کے تحت، قتل کئے جانے والے افراد کے ورثا کو حق حاصل تھا کہ وہ قاتل کو معاف کر سکیں اور اس طرح وہ سزا سے بچ جاتے۔

ملکی قوانیں پر مذہبی رنگ کے اثر کی وجہ سے پاکستان کے قوانین قتل کو کسی فرد کے خلاف جرم قرار دیتے ہیں نہ کہ ریاست کے خلاف۔ ان قوانین کے تحت جرائم کا نشانہ بننے والوں کے ورثا کو معافی دینے یا بدلہ لینے کا حق حاصل تھا۔

کیا ہوتا ہے کہ بے غیرتی کے نام پر قتل میں خاندان کے افراد عورت کو قتل کرتے ہیں۔ قتل عموماَ عورت ہوتی ہے۔ اور پھر مرد رشتہ دار ایک دوسرے کو معاف کر دیتے ہیں۔ تو اگر والد نے بے حرمتی کے نام پر قتل کیا ہے تو بیٹا اسے معاف کر دے گا۔ یا اگر بھائی نے کیا ہے تو دوسرا بھائی اسے معاف کر دے گا۔ اسی طرح چچا بھی معاف کرتے ہیں۔

خواتین کے حقوق کے لئے سرگرم کارکنوں کا کہنا ہے کہ قتل میں کوئی غیرت نہیں اس لئے اس لفظ کا استعمال بھی تبدیل ہونا چاہیئے۔

پارلیمنٹ نے جنسی زیادتی کے خلاف قانون سے متعلق ایک ترمیمی بل کی منظوری بھی دی ہے جس کے تحت اب جنسی زیادتی کا نشانہ بننے والی خاتون کے ساتھ ملزم کا ڈی این اے ٹیسٹ بھی کیا جائے گا اور ایسے واقعات کا نشانہ بننے والی خاتون کی شناخت کو ظاہر نہیں کیا جائے گا۔

’ہیومن رائٹس کمشن آف پاکستان‘ کے شریک چیرمین، کامران عارف نے بھی نئے قوانین کو مثبت قدم قرار دیا ہے۔ تاہم، انہوں نے کہا کہ ایسے جرائم کے مرتکب افراد کے لئے سزاؤں کو یقینی بنانے کے لئے پولیس کے نظام میں اصلاحات کی ضرورت ہے۔

ہمارے ساتھی محمد عاطف نے امریکہ کے دورے پر آئی ہوئی ایک رکن پارلیمنٹ ڈاکڑ شزرا خان سے اس بل کے بارے میں پوچھا۔

ہیومن رائٹس کمشن آف پاکستان کی ایک رپورٹ کے مطابق، گزشتہ سال پاکستان میں ایک ہزار سے زائد خواتین کو غیرت کے نام پر قتل کیا گیا۔

XS
SM
MD
LG