رسائی کے لنکس

امریکی بلاگر کی تصاویر کے بعد جبری مشقت کا معاملہ ایک بار پھر اجاگر


"ہیومنز آف نیویارک" کے خالق برینڈن اسٹینٹن نے اس سال موسم گرما میں پاکستان کا دورہ کیا جہاں انہوں نے پاکستان اور عام آدمی کی زندگی کے بارے میں تصاویر بنائیں اور انہیں اپنے بلاگ پر شائع کیا۔

پاکستان میں جبری مشقت کا معاملہ کوئی انوکھی بات نہیں ہے اور خاص طور پر اینٹوں کے بھٹوں پر کام کرنے والے مزدوروں کی حالت زار سے متعلق خبریں بھی منظر عام پر آتی رہتی ہیں۔

لیکن حال ہی میں سماجی رابطوں کی ویب سائیٹ فیس بک پر "ہیومنز آف نیویارک" بلاگز پر پاکستان میں بھٹہ مزدوروں سے متعلق تصاویر اور مضمون شائع ہونے کے بعد نا صرف یہ معاملہ ایک مرتبہ پھر توجہ کا مرکز بنا، بلکہ ایسے مزدوروں کی بہتری کے لیے کام کرنے والی سرگرم کارکن سیدہ غلام فاطمہ کے کام اور ان کی غیر سرکاری تنظیم کو بین الاقوامی سطح پر پزیرائی مل رہی ہے۔

"ہیومنز آف نیویارک" کے خالق برینڈن اسٹینٹن نے اس سال موسم گرما میں پاکستان کا دورہ کیا جہاں انہوں نے پاکستان اور عام آدمی کی زندگی کے بارے میں تصاویر بنائیں اور انہیں اپنے بلاگ پر شائع کیا۔

اسی سلسلے میں برینڈن اسٹینٹن نے سیدہ غلام فاطمہ کی زندگی اور ان کے کام کے بارے میں بھی تفصیل اپنے بلاگ میں 15 اگست کو شائع کیں جن کی اشاعت کے بعد سے اب تک ان کی تنظیم کے لیے تقریباً 20 لاکھ ڈالر کے عطیات جمع ہو چکے ہیں۔

سیدہ غلام فاطمہ نے وائس آف امریکہ سے ایک خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ برینڈن نے امریکہ سے پاکستان آ کر جبری مشقت کے مسئلے کو اجاگر کیا ہے۔

"برینڈن نے خود جا کر جب بھٹہ مزدوروں سے بات کی ان کی حالات دیکھے ان کو سنا ان کی تکلیف کو دیکھا اور وہ خود ہل گیا اور اس میں احساس پیدا ہوا، ایک درد پیدا ہوا کہ مجھے کچھ کرنا چاہیئے اور انہوں نے مزدوروں کے لیے جو کچھ کیا اس کو ہم سراہتے ہیں"۔

پاکستان میں جبری مشقت کرنے والوں کی تعداد کے بارے میں مستند اعدادو و شمار تو موجود نہیں ہیں تاہم سیدہ فاطمہ کا کہنا ہے کہ غیر سرکاری تنظیم ’بانڈڈ لیبر لبریشن فرنٹ‘ کے اندازے کے مطابق پاکستان میں 45 لاکھ مزدور بھٹوں پر مزدوری کرتے ہیں جن میں بچے اور خواتیں بھی شامل ہیں اور ان کی اکثریت مشکل حالات میں کام کر رہی ہے۔

سیدہ غلام فاطمہ کا کہنا ہے کہ بھٹوں پر کام کرنے والے اکثر مزدورں کو صاف پانی اور بیت الخلا کی سہولت میسر نہیں ہے تاہم ان کی تنظیم پنجاب کے اضلاع پاک پتن اور لاہور میں واقع بھٹہ مزدوروں کو یہ سہولتیں فراہم کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔

سیدہ غلام فاطمہ کا کہنا ہے کہ پورے ملک میں 20,000سے زائد بھٹے ہیں جن میں سے 10,000سے زائد پنجاب میں کام کر رہےہیں۔

انھوں نے بتایا کہ 1990 کی دہائی میں پابند مزدوروں کے حقوق کے تحفظ کے لیے قوانین بننا شروع ہوئے، تاہم سیدہ غلام فاطمہ کے بقول یہ ضروری ہے کہ حکومت ان قوانین پر موثر عمل درآمد کو یقینی بنائے تاکہ بھٹہ مزدوروں کے حقوق کے تحٖفظ کو یقینی بنایا جا سکے۔

XS
SM
MD
LG