رسائی کے لنکس

میرا بیان سفیروں اور حکمرانوں کے روابط کے بارے میں تھا: حقانی


اپنے مضمون کا دفاع کرتے ہوئے، حسین حقانی نے کہا ہے کہ اُنھوں نے محض اپنی سفارتی کامیابیوں کا ذکر کیا ہے، جو، بقول اُن کے، ’’پاک امریکہ تعلقات میں بہتری اور پاکستان کو ساڑھے سات ارب ڈالر کی امریکی امداد دلوانے کا سبب بنی‘‘

امریکہ میں پاکستان کے سابق سفیر، حسین حقانی نے ’واشنگٹن پوسٹ‘ میں تحریر کردہ اپنے مضمون کا دفاع کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’اصل میں یہ مضمون کسی بھی ملک میں سفیروں اور وہاں کے حکمرانوں کے درمیان روابط کے بارے میں تھا، نہ کہ اسامہ بن لادن کی پاکستان میں ہلاکت کے معاملے پر‘‘۔

اُنھوں نے ’وائس آف امریکہ‘ کی اردو سروس کو ایک انٹرویو میں بتایا کہ وہ امریکہ میں سفیروں اور امریکی حکام کے مابین ہونے والے روابط میں کوئی حرج نہیں سمجھتے؛ اور یہ کہ وہ خود بھی بطورِ سفیر، سنہ 2008 میں اُس وقت کی صدارتی انتخابی مہم میں براک اوباما اور جان مکین کے لوگوں کے ساتھ رابطے میں تھے۔ بقول اُن کے ، ’’اِنہی رابطوں کی بدولت، امریکہ کے خفیہ اداروں کے حکام پاکستان پہنچنے میں کامیاب ہوئے، جو بعد میں اسامہ بن لادن کو پاکستان میں مارنے کا سبب بنے‘‘۔

اپنے مضمون کا دفاع کرتے ہوئے، حسین حقانی نے کہا ہے کہ اُنھوں نے محض اپنی سفارتی کامیابیوں کا ذکر کیا ہے، جو، بقول اُن کے، ’’پاک امریکہ تعلقات میں بہتری اور پاکستان کو ساڑھے سات ارب ڈالر کی امریکی امداد دلوانے کا سبب بنی‘‘۔

اُنھوں نے کہا کہ اُن کے مضمون میں ’’بیان کیے گئے واقعات کوئی نئے انکشافات نہیں، بلکہ وہ حقیقت ہیں جسے ہر غیر جانبدار فرد تسلیم کرےگا‘‘۔

حسین حقانی پر تنقید کرتے ہوئے، مسلم لیگ (ن) کے رانا محمد افضل نے کہا ہے کہ ’’ماضی کی طرح، اِس مضمون میں بھی حسین حقانی نے پاکستان اور امریکہ کے مابین اور پاکستان کی سولین اور فوجی قیادت میں غلط فہمیاں پیدا کرنے کی کوشش کی ہے‘‘۔

اُن کا کہنا تھا کہ ’’اُس وقت کی حکومت نے حسین حقانی پر اعتماد کیا اور اُنھیں سفیر نامزد کیا‘‘، تو، بقول اُن کے، ’’اُنھیں اصول و ضوابط کا خیال رکھتے ہوئے اور پاکستانی نمائندے کے طور پر کام کرنا چاہئے تھا‘‘۔

پاکستانی ذرائع ابلاغ کے مطابق،قومی اسمبلی میں حزبِ اختلاف کے قائد، سید خورشید شاہ نے حسین حقانی کے بیان میں کیے گئے دعوؤں کی تردید کی ہے،’’ملک سے وفاداری لازم ہے، جس کے بارے میں دو رائے نہیں ہو سکتیں‘‘۔

XS
SM
MD
LG