رسائی کے لنکس

کچھ یادیں کچھ باتیں: افتخار عارف کے ساتھ ایک نشست


کچھ یادیں کچھ باتیں: افتخار عارف کے ساتھ ایک نشست
کچھ یادیں کچھ باتیں: افتخار عارف کے ساتھ ایک نشست

’لندن میں، تو خیر، اردو کے بہت سے چاہنے والے ہیں اور سب قریب قریب ہی ہیں ،اِس لیے وہاں مشاعروں میں بڑی تعداد میں لوگ آتے ہیں۔ لیکن، امریکہ میں پاکستانی اور اردو سمجھنے والے دیگر ملکوں کے لوگ تو ہیں، لیکن وہ بکھرے ہوئے ہیں‘

افتخارعارف کی شخصیت کسی تعارف کی محتاج نہیں۔ وہ ایک شاعر اورایک ادبی شخصیت ہونے کے ساتھ ساتھ ایک نہایت پروقار اور دھیمے مزاج کےانسان ہیں۔ اِس بات کا اندازہ گزشتہ دنوں اُن سے ایک ملاقات میں ہوا ۔

افتخار عارف امریکی دارلحکومت واشنگٹن میں قائم علی گڑھ المنائی ایسوایشن کی طرف سے منعقد کردہ ایک مشاعرے میں شرکت کے لیے یہاں تشریف لائے تھے۔

مشاعرے میں واشنگٹن اور اس کے گرد و نواح سے سینکڑوں لوگوں نے شرکت کی۔جناب افتخار عارف نے مشاعرے کی صدارت کی اور ساتھ میں اپنی شاعری سے خوب داد بھی وصول کی۔ مشاعرے کے بعد ان سے ملاقات ہوئی اور اس مختصر سی بات کے بعد ان کے بارے میں اور جاننے کی جستجو ہوئی تو ہم نے’ وائس آف امریکہ‘ میں اردو ریڈیو کی سینئر براڈ کاسٹر بہجت گیلانی سے رابطہ کیا ،جن کے ہاں افتخار عارف ٹھہرے ہوئےتھے۔جب اُن سے معلوم ہوا کے جناب افتخار عارف ابھی ایک دن اور واشنگٹن کے قریب واقع ان کے گھر میں قیام کر رہے ہیں، تو اگلےہی دن کا وقت لے لیا اور کیمرہ لے کر اُن سے ملنے جا پہنچے۔

بہجت گیلانی اور اُن کے شوہر شبیر گیلانی سےملاقات ہوئی۔ اُن کے ڈرائنگ روم میں ہم کیمرہ سیٹ کرنے کا سوچ ہی رہے تھے کہ جناب افتخار عارف بھی تشریف لے آئے اور پھر چائے کے انتظار کے دوران ان کی کتابوں کے بارے میں بات ہونے لگی۔ اتفاق سے بہجت گیلانی کے پاس اُن کی پہلی کتاب ’مہر ِ دو نیم‘ جو 1983 ءمیں چھپی تھی اور آخری کتاب ’ کتاب ِ دل و دنیا‘ جو 2009 ء میں منظر عام پر آئی تھی دونوں ہی موجود تھیں۔ افتخار عارف سے انٹرویو شروع ہوا، ساتھ میں چائے اور بسکٹ بھی چلے۔ اتنی دیر میں کیمرہ بھی لگ گیا۔ اور پھر ہم نے اُن سے سوال و جواب کا سلسلہ شروع کیا۔

افتخار عارف کی پیدائش لکھنو میں ہوئی ۔ انھوں نے اپنا وقت کراچی اور پھرلندن میں بھی گزارہ۔ آج کل اسلام آباد میں رہائش پذیر ہیں۔

امریکہ اور یورپ میں مشاعروں کے بارے میں بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ مغرب میں ادبی ماحول بہت مختلف ہے۔ لندن میں تو خیر اردو کے بہت سے چاہنے والے ہیں اور سب قریب قریب ہی ہیں ،اِس لیے وہاں مشاعروں میں بڑے تعداد میں لوگ آتے ہیں۔ لیکن، امریکہ میں پاکستانی اور اردو سمجھنے والے دیگر ملکوں کے لوگ تو ہیں، لیکن وہ بکھرے ہوئے ہیں، کیونکہ امریکہ جغرافیائی لحاظ سے برطانیہ کے مقابلے میں ایک بڑا ملک ہے۔ لیکنِ اِس کے باوجود، اُنھوں نے مشاعروں میں لوگوں کی دلچسپی دیکھی اور ایک بہت اچھا پہلو نوجوانوں کی شرکت رہی۔

اپنی نوجوانی کی بات کرتے ہوئے اُنھوں نے کہا کہ اُن کے ہم عصر شعراء میں سے بہت سے ایسے شاعر ہیں جو آج موجود نہیں۔ اُنھوں نے خاص طور پر فیض احمد فیض کا ذکر کیا اور کہا کہ فیض اُن کے پسندیدہ شاعر تھے ، جِ سے انھوں نےبہت کچھ سیکھا۔ اس کے علاوہ احمد ندیم قاسمی، سلیم احمد، عزیز إحمد مدنی، منیر نیازی، اختر حسین جعفری، احمد فراز اور جون ایلیا کو بھی وہ اپنے بزرگ شعرا میں گردانتے ہیں۔ ہندوستان میں سردار جعفری، اخترالایمان، کیفی اعظمی ،مجروح سلطان پوری، ندا فاضلی اور بلراج کومل کو وہ یاد کرتے ہیں۔ 70 کی دہائی کے کچھ شعرا جیسے ناصر کاظمی ، پروین شاکر اور موجود شعراء شہزاد احمد ، ظفر اقبال کو وہ اردو کے توانا شعراء میں شمار کرتے ہیں۔

پاکستانی منظر نامے کے حوالے سے بات کرتے ہوئے، اُنھوں نے کہا کہ 70 کی دہائی کی شعرا نے پاکستانیت اور پاکستانی شناخت کو بیان کیا، کیونکہ، اُن لوگوں کی ذہنی تخمیر و تشکیل پاکستان کے بننے کے بعد ہوئی۔

اُنھوں نے کہا منیر نیازی ، جون ایلیا ، احمد فراز اور ظفر اقبال کے بعد کی نسل ، جن میں وہ اپنے آپ سمیت خورشید رضوی ، امجد اسلام امجد، خالد احمداور انور شعور کو گردانتے ہیں، یہ وہ لوگ ہیں جنھوں نے اردو کی بہت خدمت کی۔

اُنھوں نے کہا کہ ہر دور اپنے آپ میں پر آشوب دور رہا ہے۔ غالب اور میر کے دور سے لے کر نو آبادیاتی نظام کے زمانے تک اور آج جس دور میں ہم جی رہے ہیں بلا شبہ یہ دور بھی پر آشوب ہے۔ اس میں بہت سے عناصر کا دخل ہے اور ادب میں یہ عناصر نمایاں رہے ہیں۔ ناصرف اردو، بلکہ پاکستان میں ہر زبان کاادب مل کر پاکستانی ادب کی ترجمانی کررہا ہے۔

اُنھوں نے چند ایسے شاعروں کی بات کی جنھوں نے انگریزی زبان میں بھی شاعری کی ہے ۔ لیکن، اُنھوں نے کہا کہ انگریزی اور اردو کو ملا کر شاعری کرنے میں بات تجربے کی حد تک تو ٹھیک ہے، لیکن شعوری طور پرایسا کرنا ٹھیک نہیں۔

اِ س دلیل پر کہ اردو کے بعض استعارے نوجوان نسل کو سمجھ نہیں آتے اور شعرا نوجوانوں سے ابلاغ کے لیے آسان زبان کو تلاش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں ، اُن کا کہنا تھا کہ اگر کسی نسل کو کچھ سمجھ نہیں آتا تو یہ اُس نسل کی ذمہ داری ہے کہ وہ زبان کو سمجھے۔

اُنھوں نے کہا کہ وہ جب تخلیقی عمل سے گزر رہے ہوتے ہیں تو اِس بات کی پرواہ نہیں کرتے کہ کسی کو اِس بات کی سمجھ آئے گی کہ نہیں بلکہ وہ بس کہہ دیتے ہیں۔

اُن کا کہنا تھا کہ اپنی نوجوانی میں انھوں نے بھی رومانوی شاعری کی۔

لیکن، زندگی بہت مختلف اور متنوع ہے۔ اور یہ آپ سے صداقت کا مطالبہ بھی کرتی ہے۔ اس لیے جیسا کہ غالب نے کہا تھا کہ ، جو دل پہ گزرتی ہے رقم کرتے رہیں گے۔ اس طرح سے ان کی شاعری بھی مختلف ادوار سے گزری۔

اُن کا کہنا تھا کہ ادب کی ذمہ داریاں بہت مختلف ہیں۔

ادب ایک ایسی خبر ہے جو وقت کی سرحدں کو پار کر جاتا ہے اور آنے والے زمانوں میں سفر کرتا رہتا ہے۔ اگرچہ زمانے کی ہنگامہ خیزیاں اپنی رفتار سے گزر رہی ہیں، لیکن ادب میں چیزیں بدلتی نہیں۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ پہلے لوگ اپنے زمانے کی ترجمانی کرتے تھے، جیسے سعدی، رومی ، حافظ یا شیکسپیئر۔ لیکن، اب ہم سب اپنی اپنی چھوٹی چھوٹی سچائیاں بیان کررہے ہیں۔ جیسے فیض، راشد، منٹو، میرا جی اور مجید امجد، ممتاز مفتی اور قدرت اللھ شہاب مل کر اِس دور کی ترجمانی کر رہے ہیں۔ اُن کی اجتماعی سوچ اس دور کی ترجمانی کرتی ہے۔

انھوں نے کہا کہ 20ویں صدی کا خاصہ رہا ہے کہ یہ اپنے آخری ایام میں یہ بلکل مختلف ہوتی چلی گئی۔ پہلے صدیاں شاعروں سے پہچانی جاتی تھیں لیکن اب نثر نگاری سے دنیا پہچانی جانے لگی ہے۔ اب امریکہ سمیت دنیا بھر میں فکشن سب سے زیادہ چھپتا ہے ۔

ادب کے مطالعے کی کمی پر بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ مطالعے کی کمی نہیں ہوئی، بلکہ ادب کے مطالعے میں کمی آئی ہے۔ انھوں نے کہا کہ اب گلیمر ، فلم ،فیشن ، سپورٹس اور سیاسی شخصیتوں کی سوانح نگاری جیسی کتابوں پر زیادہ دھیان دیا جاتا ہے۔ اس لیے، ادب و شاعری میں کمی دیکھی گئی ہے اور مادی وسائل حاصل کرنے کے لیے لوگ ادب کی بجائے سائنسز کی طرف جاتے ہیں ۔ لیکن، اُنھوں نے یہ بھی کہا کہ زیادہ دیر ایسا رہنا ممکن نہیں، کیونکہ مہذب معاشروں میں ادب کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا ، توازن اور اعتدال پیدا کرنے میں ادب اور فنون کا نہایت اہم کردار ہے ۔

افتخار عاررف آج کل اسلام آباد میں رہائش پذیر ہیں اور اپنی سوانح حیات پر کام کر ہے ہیں، جو آنے والے سال میں منظر عام پر آنے کے امکانات ہیں، جس کے لیے وہ اپنے اس سفر کی یاداشتیں اکٹھی کر رہے ہیں۔

اپنے سفر کے بارے میں بات کرتے ہوئے، اُنھوں نے کہا کہ وہ نہایت غریب گھر میں پیدا ہوئے ، کم عمری میں اُنھوں نے پاکستان ٹیلی ویژن میں کام شروع کیا ار پھر ریڈیو پاکستان میں 10 روپے روز سے آغاز کیا۔ پھر لندن میں بی بی سی میں کام کیا اور پھر اردو مرکز میں کام کرتے رہے۔ اکادمی ادبیات پاکستان اور نیشنل بک فاوٴنڈیشن کے علاوہ مقتدرہ قومی زبان سے بھی وابستہ رہے۔

اُنھوں نے کہا کہ وہ خوش نصیب ہیں کہ انھوں نے اپنی شرطوں پر زندگی گزاری اور جو چاہا وہ کیا۔

اُنھوں نے کہا کہ جیسا کہ غالب نے ایک خط میں کہا تھا کہ جو آدمی کا شوق اور ذوق ہو وہ اگر اسکا وسیلہٴ رزق بھی بن جائے تو اس سے بڑی عیاشی کوئی نہیں۔ اور وہ خود بھی ساری زندگی کتاب کے قریب رہنا چاہتے تھے اور لکھنا چاہتے تھے۔ اُن کے لکھے ہوئے شعر پسند کیے گئے اور اللھ نے انھیں نوازا جس پر وہ شکرگزار ہیں۔

افتخار عارف کی ایک تازہ غزل جو اُنھوں نے ہمیں سنائی، ذیل میں درج ہے:

بکھر جائیں گے کیا ہم جب تماشا ختم ہو گا
میرے معبود آخر کب تماشا ختم ہو گا

چراغِ حجرہ درویش کی بجھتی ہوئی لو
ہو ا سے کہہ گئی ہے اب تماشا ختم ہو گا

کہانی آپ اُلجھی ہے کہ اُلجھائی گئی ہے
یہ عقدہ تب کُھلے گا جب تماشا ختم ہو گا

یہ سب کٹھ پتلیاں رقصاں رہیں گی رات کی رات
سحر سے پہلے پہلے سب تماشا ختم ہو گا

تماشا کرنے والوں کو خبر دی جا چکی ہے
کہ پردہ کب گرے گا کب تماشا ختم ہو گا

دلِ ما مطمئن ایسا بھی کیا مایوس رہنا
جو خلق اُٹھی تو سب کرتب تماشا ختم ہو گا

XS
SM
MD
LG